فرانس اور پاکستان کے مسلمانوں کا مشترکہ ورلڈ کپ


آج سوشل میڈیا پہ ہر جگہ یہ بتایا گیا کہ فرانس میں مسلمانوں کے ساتھ امیتازی سلوک ہو رہا اور اس کی ٹیم میں سات کھلاڑی مسلمان ہیں۔ وہ ورلڈ کپ جیت گئے ہیں؛ اس میں پاکستان کی کوئی محنت نہیں ہے۔ چلیں مان لیا ہم سارے مسلمان ہیں۔ ہم نے فرانس کی ٹیم کے لیے دعا کی کہ اللہ مسلمان ہونے کے نا تے سے فرانس کی ٹیم جیت جائے۔ مگرمجھے اس پر شک گزرا کہ ایسا تھوڑا مشکل ہے، کیوں کہ ہمارے دوست ملک سعودی عرب اور پڑوسی ملک ایران کی ٹیم بھی تھی، اس وقت ہماری دعائیں کہاں تھیں؟ کیا ہم وضو میں نہیں تھے؟ یا ہم نے فرقہ الگ ہونے کی وجہ سے دعا نہ کی؟

اب آتے اصل بات کی طرف۔ ہم نے دیکھا دیکھی فرانس کے مسلمانوں کے حق میں شیئر کرنا شروع کر دیا کہ امتیازی سلوک بند کیا جائے۔ ہمارے کچھ مذہبی افراد نے اس کو امت مسلمہ کا قرض اور مسلمان ہونے کی سند سمجھی اور پوسٹ شیئر ہوتی رہی۔ اللہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، اور انسانیت کی خدمت کی توفیق دے۔

یہ بات ہے 1926 کی جب جھنگ شہر میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ شروع سے بہت لائق تھا۔ آہستہ آہستہ وہ آگے بڑھتا چلا گیا اور 1943 میں وہ نوجوان اسکالر شپ لے کر باہر چلا جاتا ہے۔ اور پھر حکومت بھی اُس کے کام کو سراہتی ہے۔ پھر 1979 میں اس کو دنیا کا سب سے بڑے اعزاز سے نوازا جاتا ہے۔ وہ شخص اس دن بھی اپنی مٹی سے پیار نہیں بھولا اور قومی لباس پہن کر گیا۔ اس شخص کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟ اس کے نام پر یونیورسٹی مین ایک چیئر ہوتی تھی، وہ ختم کر دی کس لیے ختم کی؟ اس لیے کہ وہ احمدی تھا۔

برصغیر ایک ٹکڑا ہے، جس کے دعوے دار اشوکا، ابرہیم لودھی، اکبر، اور بہت بڑے نام کرتے آئے۔ پھر انگریز آئے انھوں نے بتایا اب ہم وارث ہیں۔ پھر کانگرس بنی اوراس نے وہی قومیت کا منجن پیچنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کو لگا کہ یہ اپنے ہی جیب بھر رہے تب جا کر کچھ بنگالیوں نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور کچھ احمدی تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد، جب ہندوستانی انگریزی راج سے تنگ آ گئے تھے اور انگریز خود بھی جنگ کے بعد اس حالت میں نہیں تھا، جو ایسی رعایا کا بوجھ اٹھاتا۔ پھر وہی صدیوں سے جو چلا آ رہا تھا؛ برصغیر ہمارا ہے۔ انگریز تھے سیانے، ہندوستان ان کے حوالے کرنے سے پہلے اس کے دو حصے کر دیے۔

پاکستان بن گیا، اور پھر جو کچھ یہاں ہوا، وہ سبھی جانتے ہیں۔ مذہب کے نام پر لہو بہا۔ پاکستانیو! تم اپنے ملک کے ساتھ اگر یہ کر رہے ہو تو فرانس تارکین وطن کے ساتھ کیا برا کر رہا ہے؟ تم لوگ کہاں کھڑے ہو؟ ایسی جگہ جہاں پر ہم نے انسانی حقوق کی کوئی پروا نہیں؛ مذہب اور غیرت کے نام پر کبھی مشال چلا جاتا تو کبھی قندیل بلوچ۔ اگر فرانس تارکیں وطن کے ساتھ وہی کچھ کر رہا تو کرنے دو۔ اگر اقوام متحدہ اس پر کوئی پابندی لگائے تو پھر تم کہہ سکتے ہو۔

عالمی برادری ہمیں گرے لسٹ میں ڈال دیتی ہے چند سچے لوگوں کے علاوہ کوئی آواز نہیں بلند کرتا۔ قوم کے بقول دوست ملک سعودی عرب، چین ہمارے خلاف ووٹ ڈالتے ہیں۔ عالمی برادری کا کہنا ہے، کہ حافط سعید کو لگام دو؛ ہم الٹا اس کے بیٹے کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ اگر کسی کو وطن سے زیادہ پیار ہو جاتا تو وہ یہ ثابت کرنے کے لیے انڈیا کے جھنڈے پر کھڑا ہو کر پکچر لیتا ہے، اور یہ قوم اس کی پکچر ہر جگہ وائرل کر دیتی ہے۔ خادم رضوی فرماتے ہیں کہ اپنے ملک کے سب سے لائق شخص کو مرے ہوئے بھی چین نہیں دیں گے۔ اگر ہم ہی ایسے ہیں تو دوسرے کو کیوں کہتے ہیں؟ ہم کو کسی بھی اقلیت سے مسئلہ نہیں، مذہبی جنونیت سے ہے۔ ہم یہاں اقلیت کے ساتھ ایسے کرو گے دوسرے اپنی اقلیت کے ساتھ، انسانیت ہی سب کچھ ہے۔ مذاہب اس کے بعد ہیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے، یہ کہیں نہیں لکھا گیا ایک مسلمان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔ اس لیے انسانیت کو پھلنے پھولنے دو۔ مذہب اپنے لیے نہ کہ دوسرے کی زندگی جہنم کرنے کی لیے ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).