کیا موٹر مکینک بھی بھائی ہوتا ہے؟


 \"waqarواقعہ 2013 کا ہے۔ روزانہ پورچ میں گاڑی کا رستا تیل پڑ اہوتاتھا ۔ ایک دن فیصلہ کیا پورچ میں اس سیاہ نقش نگاری سے جان چھڑا ئی جائے۔

 مکینک کے پاس جا پہنچا۔ مکینک بھی وہ کہ عزیز از جان دوست۔ میں نے کہا استاد جی تیل رس رہا ہے پہلے بھی ایک دو دفعہ ایسا ہوا تھا لیکن تیل کے ٹینک کے نیچے والا نٹ ڈھیلا تھا ۔ نٹ ٹھیک کیا تھا تو تیل رسنا بند ہو گیا تھا۔ پہلے نٹ دیکھ لیں یا اگر کوئی اور مسئلہ ہے تو ٹھیک کردیں۔

مجھے دفتر جانے کی جلدی ہے اس لیے پہلی فرصت میں میری گاڑی کو دیکھیں۔

گاڑی کو اڈے پر لگایا اور گاڑی کے انجن کا اوپر نیچے سے انہوں نے باریک بینی سے مطالعہ کیا اور میری جانب منہ لٹکائے آئے۔

کہنے لگے انجن کھولنا پڑے گا ۔ سیلیں لیک کر گئیں ہیں۔ تیل جگہ جگہ سے رس رہا ہے ۔ حیران ہوں انجن چل کیسے رہاہے۔

میں نے کہا پورا انجن کھولنا پڑے گا ؟یہ تو بہت زیادہ ہو جائے گا ۔ میرے پاس تو ابھی اتنے پیسے بھی نہیں ہوں گے ۔ کوئی اور صورت نہیں نکل سکتی ۔

کہنے لگے کمال کرتے ہیں انجن جگہ جگہ سے لیک کر رہا ہے ۔کھولے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔نہیں کروائیں گے تو انجن تباہ ہو جائے گا۔بیس پچیس ہزار میں کام ہو جائے گا پیسوں کی پرواہ نہ کریں ۔ بھلا آپ سے پیسے عزیز ہیں ۔ کر لیں گے۔ پھر یہ بھی تو دیکھیں گاڑی زیرو میٹر ہو جائے گی ۔ سڑک پر ملائی ہو جائے گی۔ آپ کو بار بار بونٹ کے ساتھ کان لگا کر سننا پڑے گا کہ شٹارٹ بھی ہے یا نہیں۔

آپ سے کیا پردہ ۔۔مجھے زیرو میٹر گاڑی چلانے کی ہمیشہ سے حسرت تھی اور شوق تھا اس لیے میں نے حیرت سے کہا ، اتنی تبدیلیاں آ جائیں گی تو ۔۔

….تو پھرٹھیک ہے میری تنخواہ آنے والی ہے ۔میں بندو بست کر لوں گا ۔

مکینک نے چھوٹے کو کہا کہ انہیں موٹر سائیکل پر دفتر چھوڑ آﺅ۔

\"auto\"ایک دن بعد ورکشاپ چکر لگایا تو دل جیسے پکڑا سا گیا ہو۔ بے زبان گاڑی کا انجر پنجر ہوا تھا۔بونٹ پر ہاتھ رکھ کر اس بے زبان کو دلاسا دیا

گاڑی تک روحانی ذریعہ سے پیغام پہنچایاکہ بڑی بہتری کے لیے ابتلا سے گزرنا تو پڑتا ہے۔ اس فقرے میں سموئے فلسفہ کو میں نے گاڑی کے بونٹ پر ہاتھ رکھ کر گاڑی تک پہنچایا۔ اور واپس گھر چلا گیا۔ اس سے اگلے دن ورکشاپ گیا تو خوشخبری ملی کہ انجن باندھا جا رہا ہے اور کل تک سٹارٹ ہو جائے گا۔

چوتھے دن اس تجسس میں ورکشاپ پہنچا کہ زیرو میٹر انجن کی آواز سنوں گا۔ جا کر دیکھا تو گاڑی کو سٹارٹ کرنے کے حتمی مراحل تھے۔

شکر کیا کہ قدرت نے سٹارٹ ہونے کی اس انمول گھڑی سے محروم نہیں رکھا۔

دس بارہ دفعہ سلف دیا گیا اور بھیانک آوازیں آئیں لیکن انجن سٹارٹ نہ ہوا۔ مختلف تکنیکی معاملات کو دوبارہ چیک کرنے کے بعد پھر کوشش کی گئی۔

زور دار چخ چخ چخ …. کے بعد انجن سٹارٹ ہو گیا ۔دل بجھ سا گیا۔ انجن کی آواز پہلے سے بھی زیادہ تھی۔ جبکہ دوسری طرف مکینک اور ہمنوا خوشی سے جھوم رہے تھے اور داد طلب نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے، میرے اوپری چہرے پر مسکراہٹ کی لکیریں تھیں اور میں اس انتظار میں تھا کہ مکینک صاحب سے کسی گوشہ تنہائی میں بات کر نا نصیب ہو جائے کہ یوں سر عام انجن کی آواز زیادہ ہونے کی شکایت کرنا مناسب بات نہیں ہے۔

 خیر ورکشاپ کی ایک نکڑ پر کوئی اوزار لینے گئے تو میں بھاگ کر ان کے پاس پہنچا اور کہا ، بھائی آپ کو نہیں لگتا انجن کی آواز پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی ہے ۔ انہوں نے میری طرف دیکھا۔۔ ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہا ، ابھی تو سٹارٹ ہوا ہے ایسے تھوڑا ہوتا کہ سٹارٹ ہوتے ہی زیرو میٹر ہو جائے ۔ رننگ ہو گی پھر پرزے جگہ پکڑیں گے کچھ انجن کے نہاں گوشوں میں تیل اثر دکھائے گا ۔ وقت لگے گا ۔۔آپ بہت سادہ آدمی ہیں

وہ بات کر کے نکل گئے اور میں مارے شرمندگی کے وہاں ہی کھڑا رہ گیا۔ بھلا یہ تو عام فہم سی بات ہو گی اور میں نے کیسا بے ہودہ سوال کر دیا۔

پانچویں دن میں پچیس کی بجائے اٹھائیس ہزار روپے دے کر گاڑی لے کر گھر کی جانب چلا۔

 اٹھائیں ہزار اس لیے بقول مکینک تخمینے میں اتنا اتار چڑھاﺅ …. نہیں تخمینے میں اتنا چڑھاﺅ آ ہی جاتا ہے۔

میں گاڑی لے کر گھرروانہ ہوا۔ گھر پہنچنے کے لیے لمبا راستہ لیا کہ شاید پرزے اپنی جگہ بیٹھ جائیں۔ شاید تیل اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے اور انجن سے آنے والا شوروغوغا اور ایک اضافی آواز بند ہو جائے۔ لیکن گھر پہنچنے تک کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ دل کو تسلی دی کہ اصل مقصد رستے تیل سے جان چھڑانا تھی چھوٹ گئی باقی نعمتیں اضافی ہیں بونس ہیں ۔ قسمت میں ہوئیں تو مل جائیں گی اور زیرو میٹر گاڑی چلانے کی حسرت پوری ہو جائے گی،

دوسرے دن اٹھا، گاڑی نکالی اور پورچ میں ہاتھ برابر تازہ تیل کے نقش و نگار دیکھ کر گم صم ہو گیا۔

اٹھائیس ہزار میں تیل کے نقش ونگار۔۔

دفتر سے دیرہو رہی تھی لیکن پہلے ورکشاپ گیا اور مکینک کو بہت محبت بھری مسکراہٹ سے ملاکیونکہ مجھے یقین تھا جو کچھ میری ارد گرد کائنات میں ہو رہا ہے غلط فہمیوں اور کم فہمیوں پر مبنی ہے ۔مکینک کی صلاحیتوں پر شک کرنا اپنی خباثت اور نالائقی کا اظہار ہے۔

مکینک سے صورت حال بیان کی ۔ ان کے چہرے پر ذرا برابر تشویش کے سائے نہیں آئے ۔ انہوں نے چھوٹے کو آواز دی اور کہا کہ چیک کرے ۔ لیکن چیک کرنے سے پہلے ایک زبردست کڑک سی دودھ پتی کا آرڈر دے آئے ۔ آرڈر دینے کے لیے جاتے چھوٹے کو انہوں نے پھر بلایا اور تاکید کی کہ ہوٹل والے کو کہنا ملائی کی موٹی تہہ ڈالے ۔

ہم دھوپ میں بیٹھے تھے ۔ مکینک بولے آج کام کرنے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا ۔ آج بس دھوپ میں بیٹھے رہنے کو دل کر رہا ہے ۔ کسمساہٹ سی ہے ۔ بدن ساتھ نہیں دے رہا۔ اتنے میں دودھ پتی آگئی ۔ مکینک نے اوڑھی چادر میں سے ہاتھ نکالا اور کپ پکڑا، دوسرے ہاتھ میں فنکاری سے سگریٹ سلگایا۔

چھوٹا انجن کو دیکھ بھال کر ہمارے پاس سے باہر کی جانب گزر ا تو میں نے پوچھا کہ کچھ پتہ چلا،

کہنے لگا وقار بھائی کوئی مسئلہ شسلہ ہے ہی نہیں سرے سے….

یہ کہہ کر وہ نکل گیا۔

مکینک اور میں دھوپ سینک رہے تھے۔ مکینک چائے کی پیالی میں ڈالی گئی ملائی میں شگاف ڈال چکے تھے اور اس شگاف میں کامیابی سے سڑ سڑ کر رہے تھے۔

میں سوچ رہا تھا کہ اٹھائیس ہزار روپے لگ گئے، تیل اسی طرح رس رہا ہے، انجن کی آواز زیادہ ہو گئی ہے۔ اور ایک آواز اضافی بھی سنائی دے رہی ہے ۔اور مسئلہ شسلہ کیا ہوتا ہے؟ لیکن ہو سکتا ہے یہ کوئی مسئلہ شسلہ نہ ہو میں اسے زیادہ اہمیت دے رہاہوں۔

مکینک کے چہرے پر نگاہ پڑتی تو ایسے سکون اور شانتی کو دیکھتا جو دنیا میں صرف اچھے نیک اور دیانتداروں کا حصہ ہے ۔ میں جھنجلاہٹ کا شکارہو رہا تھا۔

ایک دفعہ پھر وہی چھوٹا ہاتھ میں ایک نٹ سا لیے بھاگتا ہوا ہمارے پاس سے گزرا۔ مکینک نے سرسری نگاہ سے اس کی طرف دیکھا اور سرما کی میٹھی دھوپ میں ایک انگڑائی لی۔

چھوٹا کوئی پانچ منٹ کے بعد میری طرف آتا دکھائی دیا۔

چہرہ کھلا ہوا تھا، آتے ہی اس نے نعرہ مارا، کام فٹ ہوگیا جی گڈی فٹ ہو گئی ، استاد جی گڈی بم ہو گئی۔

میں نے کہا مسئلہ کیا تھا؟

کہنے لگا مسئلہ شسلہ کچھ نہیں تھا وہ نیچے تیل کے ٹینک کا نٹ تبدیل کیا ہے وہ ڈھیلا تھا۔ اب فٹ ہو گیاہے۔

میں نے مکینک کی طرف دیکھا جو تہہ میں بچ چکی ملائی اکٹھا کرنے کے لیے پیالی کو گھما رہا تھا ،

وہ ایک ہی بار ساری ملائی کو منہ میں انڈیلنے کے چیلنج سے نبر د آزما تھا۔

منہ میں ایک ہی ملائی انڈیلنے کے کارنامہ کو سرانجام دینے سے ایک سیکنڈ پہلے اس کی زبان سے فقط ایک جملہ نکلا۔ چلو مسئلہ تو حل ہو گیا ناں

میں نے چھوٹے سے پوچھا کتنے پیسے ؟ نٹ کتنے کا آیا ہے؟

چھوٹے نے جواب دیا ۔۔بیس روپے۔

مکینک نے اپنے اوپر سے چادر اتار پھینکی اور اٹھ کر چھوٹے کو کہا، گدھے وقار بھائی کو پیسے بتاتا ہے پوچھ تو لیا کر۔۔ ہر آدمی گاہک نہیں ہوتا کوئی بھائی بھی ہوتا ہے۔ دفع ہو جا میری نظروں سے ۔

مجھ میں نہ جانے کہاں سے ہمت آئی میں اٹھا اور زبردستی بیس روپے مکینک کی جیب میں ڈالے اور کہا ۔۔۔

بھائی وائی کا رشتہ اپنی جگہ ۔۔لیکن کاروبار کاروبار ہوتا ہے۔

گاڑی کی جانب گیا۔ ٹانگیں کانپ رہیں تھیں۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے بونٹ کی جانب گیا اور بونٹ پر ہاتھ رکھ کر ازراہ ہمدردی گاڑی سے کچھ…. کہا!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments