بارے گدھے کا کچھ بیان ہو جائے


مبارک ہو کہ ہماری ملکی سیاست شیروں اور ٹائیگرز سے ہوتی گدھوں تک آن پہنچی۔ اس سے قبل کہ گدھوں کے میدانِ سیاست میں قدم رکھنے کو خوش آئند قرار دیا جاتا، کراچی میں ہونے والے واقعے نے گدھا برادری میں سراسیمگی کی لہر دوڑا دی ہے۔ گدھے اب تک حیران ہیں کہ یہ کون گدھے تھے جنہوں نے اپنا غصّہ اپنے ہم جنس پر نکالا۔ تب سے یہ صورتحال ہے کہ جس شہر میں بھی تحریکِ انصاف کی ریلی نکلتی ہے، ریلی کے اختتام کے بعد شہر کے سب گدھے فیس بک پر خود کو ”سیف“ مارک کرتے ہیں۔ واقعے کی سنگینی اپنی جگہ مگر اس واقعے سے یہ ابہام تو دور ہوا کہ اپنی مشہورِ زمانہ تقریر میں خان صاحب نے مسلم لیگ کے کارکنوں ہی کو گدھا کہا تھا۔ ورنہ کافی دن تک تو نیب کی ٹیم کے ارکان یہی سمجھتے رہے کہ خان صاحب نے ان پر پھبتی کسی ہے۔

گدھے کو ہمارے یہاں کم عقل اور سمجھ سے عاری جانور سمجھا جاتا ہے جو سر جھکائے مالک کے اشاروں پر باربرداری کی خدمت سرانجام دیتا رہتا ہے۔ یقیناً خان صاحب نے یہ تشبیہ تفنّن طبع کے لیے دی ہو گی۔ ورنہ وہ اس بات سے کیسے بے خبر ہو سکتے ہیں کہ امریکہ بہادر کی قدیمی ڈیموکریٹ پارٹی کا انتخابی نشان گدھا ہے۔ بلکہ اب تو وہ دولتی مارتے ہوئے گدھے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اور امریکی صدر باراک اوباما اسی ڈیموکریٹ پارٹی کے گدھے تھے۔

کسی زمانے میں لاہور میں گدھے کا گوشت فروخت ہونے کا بہت شور تھا۔ یقیناً مسلم لیگ ن کے جلسوں میں جو قیمے والے نان تقسیم کیے جاتے رہے ہیں وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسی گدھے کے گوشت کے قیمے سے تیار کیے جاتے رہے ہوں گے، تاکہ کارکنوں میں گدھے والی خصلتیں اجاگر کی جا سکیں۔ شاید اسی لیے تحریکِ انصاف کے جلسوں میں قیمے والے نانوں کا متبادل بریانی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ کسی مخالف نے سازش کے تحت پکویّوں سے ساز باز کر کے ”کوّا بریانی“ تقسیم کروا دی ہے۔ جب ہی تو تحریکِ انصاف کے کارکنوں میں کوؤں کی سی خصلتیں پیدا ہونے لگی ہیں۔

ویسے تو ارتقأ کی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ انسان جانوروں جیسی خصلت ارتقأ پذیر ہونے کے ساتھ دب تو گئی ہے مگر کسی نہ کسی موقع پر وہ اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلاتی رہتی ہے۔ جب یہ خصلت انسان پر غالب آ جاتی ہے تو وہ جانوروں جیسی حرکات سے بھی گریز نہیں کرتا اور کسی کی جان لینے پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے۔ خون آشامی، بہادری، بے قابو جنسی خواہش، اپنی بقأ کی جدوجہد۔ اور اس جیسی دیگر خصلتیں شاید انسان میں اسی ابتدائی دور کی یادگار ہیں۔ ہاں مگر حسد، جھوٹ، منافقت اور چرب زبانی جیسی عادات یقیناً انسان کے شعوری ارتقأ کی دین ہیں۔ اس لیے خود کو جانور سے تشبیہ دیے جانے کو معیوب سمجھنا تو نا انصافی ہوئی۔

جب آپ خود کو نواز شریف کے شیر اور عمران خان کے ٹائیگرز قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ تو پھر گدھا کہلانے میں کیا برائی ہے؟ یقین مانیے، تمام سیاسی قائدین کارکنوں کو گدھا ہی سمجھتے ہیں۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان سیاسی قائدین کو گدھا سمجھتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ موقع کی مناسبت سے ان میں سے کسی گدھے کو استعمال کرنے کے لیے اس پر دھاریاں بنا کر اسے زیبرا ثابت کر دیا جاتا ہے۔ مگر دھاریاں رنگ دینے سے کوئی گدھا زیبرا تھوڑا ہی بن جاتا ہے۔ ہاں وہ الیکشن تک لیے خود کو۔ زیبرا زیبرا مجسوس کرنے لگتا ہے اور باقی سب اسے گدھے نظر آتے ہیں۔ مگر الیکشن کے بعد عموماً بارش ہو جاتی ہے۔ اور جب اس کی دھاریاں دھل جاتی ہیں تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اصل میں تو وہ اب بھی گدھا ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).