عمران خان کی ممکنہ حکومت کے لئے پیشگی چیلنجز


صرف ایک ہفتہ رہ گیا ہے اور انتخابی گیم کچھ اس طرح کی لگی ہوئی ہے کہ تحریک انصاف کا وفاق میں حکومت تشکیل دینا تقریباً یقینی نظرآ رہا ہے۔ اس روشن امکان کے تناظر میں عمران خان صاحب اور ان کی ٹیم کو ابھی سے عوام کو اعتماد دلانے کے لئے کچھ فیصلوں کا سادہ اور واضح الفاظ میں اعلان کرنا ہوگا۔

پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں روزانہ کی بنیاد پر خطرناک حد تک گررہی ہے۔ کرنسی کے کئی سوداگروں کا خیال ہے کہ خان صاحب کے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھائے جانے کے روز تک شاید ہمیں 137روپے دے کر ایک امریکی ڈالر خریدنا ہوگا۔ مہنگے ڈالر کا فوری نتیجہ پیٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کی صورت میں نظر آنا یقینی ہے۔ نقل وحمل کے اخراجات میں اضافے کا جواز دکانوں میں موجود اشیائے صرف کے نرخ بھی بڑھادیتا ہے۔ مہنگائی کی ایک طاقت ور لہر چل پڑی ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر اثرانداز ہوگی۔

تحریک انصاف اور انگریزی اخبارات میں مضامین لکھ کر مجھ جیسے عامیوں کو معاشیات کی باریکیاں سمجھانے والے دانشور، نواز حکومت کو مہنگائی کی موجودہ لہر کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ شاید وہ درست کہہ رہے ہوں گے کیونکہ اس حکومت کے دور میں ہماری درآمدات پر خرچ ہونے والی رقم اور برآمدات کے ذریعے جمعکیے زرمبادلہ ذخائر کے مابین تفاوت مسلسل بڑھتا چلاگیا۔

گزشتہ حکومت کا اگرچہ یہ دعویٰ تھا کہ ملکی معیشت کو متحرک اور جاندار بنانے کے لئے ملک کو ان درآمدات کی ضرورت تھی جو زیادہ تر ہمارے دوست ملک چین کی مدد سے لگائے بجلی کے کارخانوں اور سی پیک کے تحت سوچے مختلف منصوبوں کی مشینری اور جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل ہیں۔ ایسی درآمدات کو ون ٹائم افیئر بھی کہا گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ کسی بڑے منصوبے کے لئے بھاری مشینری صرف ایک بار ہی منگوائی جاتی ہے۔ یہ بھینس خریدنے کے مترادف ہے۔ ایک بار بھاری رقم خرچ کرو اور روزانہ کی بنیاد پر دودھ حاصل کرکے اسے بیچنا شروع کردو۔ وغیرہ وغیرہ۔

نواز شریف کے ووٹ بینک نے حکومتی دعوے پر اعتبار کیا۔ بنیادی وجہ اس کی ڈالر کی قیمت تھی جسے اسحاق ڈار نے ضدی بچے کی طرح کبھی بڑھنے نہیں دیا۔ ماہرین معیشت کی اکثریت اگرچہ اصرار کرتی چلی گئی کہ ڈار صاحب کی ضد کی وجہ سے پاکستانی برآمدات کو بیرون ملک بیچنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ فیصل آباد کے کارخانے میں تیار ہوا کپڑا بنگلہ دیش سے آئے کپڑے کے مقابلے میں مہنگا ہے۔ پاکستانی روپے کی قیمت کمکیے بغیر بین الاقوامی بازار میں پاکستانی کپڑے کے گاہک تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ عام پاکستانیوں نے مگر ان کی چیخ وپکار پر توجہ نہ دی۔ ڈار صاحب نے کسی نہ کسی صورت پاکستانی معیشت کے بارے میں ان کے لئے فیل گڈ فیکٹر برقرار رکھا۔ اس فیکٹر کے برقرار رہنے کی اگرچہ کوئی ٹھوس بنیاد موجود نہیں تھی۔

درآمدات پر خرچ ہوئی رقم اور برآمدات کے ذریعے کمائے زرمبادلہ کے مابین فرق کے علاوہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر دوسرا اہم بوجھ وہ قسطیں ہوتی ہیں جو غیر ملکی قرضوں کی مد میں ادا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بسا اوقات ہم ان قسطوں کو بھی بین الاقوامی منڈی سے مزید قرضے لے کر ادا کرتے ہیں جن کی شرحِ سود ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف وغیرہ کے ذریعے حاصلکیے قرضوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

پاکستانی روپے پر اضافی بوجھ اس وجہ سے بھی آیا ہے کہ ا مریکی بینکوں نے حال ہی میں اپنے ہاں جمع شدہ رقوم کی شرح منافع بڑھادی ہے۔ دنیا بھر میں جن لوگوں کے پاس وافر ڈالر موجود ہیں وہ انہیں کسی کاروبار میں لگانے کے بجائے امریکی بینکوں میں جمع کرواکے ماہانہ منافع کمانا شروع ہوگئے ہیں۔ اس عمل کا اثرصرف پاکستان ہی نہیں ترکی اور ارجنٹائن جیسے ممالک میں بھی نظر آرہا ہے۔ تیل وگیس کی دولت سے مالامال ہمارے ہمسایے ایران کی کرنسی کی قدر بھی خوفناک حد تک گرچکی ہے۔ ایران کے کئی ازلی دشمن تو یہ طے کربیٹھے ہیں کہ ایرانی کرنسی کی قدر میں یہ کمی ہی اس ملک کو ”بندے کا پتر“ بننے پر مجبور کردے گی۔ امریکہ یا اسرائیل کو شاید اس کی وجہ سے ایران کے خلاف فوجی جارحیت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔ ہمیں فوری فکر مگر اپنے ملک کی معیشت کے بارے میں ہونا چاہیے۔

سادہ اور آسان نسخہ تو وہی ہے جو پاکستان کی ہر حکومت نے مشکل وقت نبھانے کے لئے استعمال کیا اور وہ نسخہ ہے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا جو طویل گفت وشنید کے بعد پاکستان کے لئے کوئی بیل آؤٹ پیکیج کا اعلان کرتا ہے۔ اس پیکیج پر دستخط کے بعد پاکستان کے لئے چندٹھوس اقدامات لینا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ ان اقدامات کو ہم ”شرائط“ کہتے ہیں اور بسا اوقات یہ شرائط فقط معاشی میدان تک ہی محدود نہیں ہوتیں۔ قومی مفادات کے نام پر بنائے چند اصولوں پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان کو مثال کے طورپر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایف اے ٹی ایف نے پہلے ہی گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ وجہ اس کی یہ بتائی جارہی ہے کہ ہمارے معاشی نظام پر نگاہ رکھنے والوں کے خیال میں ہمارا مالیاتی نظام ”دہشت گرد“ تنظیموں کو چندے کے نام پر ملی رقوم کو روکنے میں کمزور ثابت ہورہا ہے۔ امریکی قیادت میں قائم ہوا بین الاقوامی مالیاتی نظام جن لوگوں کو ”دہشت گرد“ کہتا ہے ہماری نظر میں محض دیندار افراد ہیں جو کھٹکتے ہیں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح۔

اقتدار سنبھالتے ہی عمران خان صاحب اور ان کی حکومت کے لئے ”کشکول اٹھاکر “ آئی ایم ایف جیسے اداروں کے روبرو بیل آؤٹ پیکیج کی فریاد کے لئے جانا سیاسی اعتبار سے بہت مشکل ہوگا۔ تحریک انصاف قومی مفاد کے نام پر بنائے چند اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کو بھی تیار نہیں ہوگی۔

آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے علاوہ پاکستان کو مہنگائی کی تازہ لہر سے بچانے کا تحریک انصاف کے پاس کیا نسخہ ہے اس کے سرکردہ رہ نماؤں کو تواتر کےساتھ اسے عوام کے سامنے سادہ اور واضح الفاظ میں رکھنا ہوگا۔ تحریک انصاف کوئی قابل عمل متبادل متعارف نہ کرواپائی تو نواز شریف کا ووٹ بینک یہ سوچنے کو مجبور ہوگا کہ گزشتہ حکومت کے دوران اسحاق ڈار کی سوچی اور چلائی معیشت ہی بہتر تھی۔ خان صاحب نے دھرنوں وغیرہ کے ذریعے اسے مگر مستحکم نہ ہونے دیا۔ لہذا 25 جولائی کو شیر کے نشان پر ٹھپہ لگاکر گزشتہ حکومت کے لئے جزا اور تحریک انصاف کے لئے سزا کا بندوبست کیا جائے۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).