مجھے وہ چاہئے جو مجھے نہیں چاہئے


جی ہاں آپ نے ٹھیک پڑھا! مجھے وہی چاہیے جو مجھے نہیں چاہیے۔ دیکھئے مجھے سودائی سمجھنے سے پہلے ایک دفعہ میری بات غور سے سُن لیجیے۔ میں اچھا خاصا پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ اچھا خاصا کاروبار چلاتا ہوں، کئی لوگ اپنے معاملات میں مُجھ سے مشورہ مانگتے ہیں، اور اُن پر عمل کرنے سے انہیں فائدہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن بہت غور کرنے کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ مجھے وہی چاہیے جو کہ دراصل مجھے نہیں چاہیے۔ بلکہ مجھی پر کیا موقوف، مجھے تو اپنے عزیزوں، دوستوں اور ارد گرد کے اکثر لوگوں کے بارے میں شُبہ ہے کہ وہ بھی وہی چاہتے ہیں جو اُنہیں نہیں چاہیے۔ میں جانتا ہوں کہ کُچھ نفسیاتی بیماریوں میں ایسا ہوتا ہے کہ مریض کو دوسروں پر شک ہونے لگتا ہے، لیکن یقین جانئے میں نفسیاتی مریض نہیں ہوں۔

چلئے کسی گہرائی میں جانے سے پہلے، میں آپ کے سامنے ایک سادہ سی مثال پیش کرتا ہوں۔ مسلمان ہونے کے ناطے، میں سمجھتا ہوں کہ ہر مسلمان مرد کو چار شادیاں کرنے کا حق ہے، اور اس لحاظ سے مجھے بھی ہے۔ بلکہ چار شادیاں نہیں دراصل ایک وقت میں چار بیویاں رکھنے کا حق ہے۔ اگر کسی ایک بیوی کو طلاق دے دی جائے، تو اُس کی جگہ کوئی پانچویں بیوی چار کا ٹوٹل پورا کرسکتی ہے۔ یہ معاملہ اکثر اُٹھتا بھی رہتا ہے، اور اسلامی نظریاتی کونسل میرے اس حق کو تسلیم بھی کرتی ہے۔ لیکن یہ بات مجھے ہر گز قبول نہیں کہ میری بہن یا بیٹی کا شوہر اُس پر سوتن لے آئے۔ یعنی مجھے چار بیویاں چاہئیں، جو کہ دراصل مجھی نہیں چاہئیں۔ اور میں جانتا ہوں کہ اس معاملے میں فدوی اکیلا نہیں۔ بہت سے دوسرے مردوں کا بھی یہی حال ہے

ایسی ہی ایک عام سی مثال مزید دیکھئے۔ اشارے سے گزرتی ہوئی ٹریفک میں جب کوئی منچلا میرے عین سامنے سے زن کی آواز کے ساتھ اشارہ کاٹ کر گزر جاتا ہے، تو میں چاہتا ہوں کہ اشارہ کاٹنے پر نہ صرف یہ کہ کڑی سزا ہونا چاہیے بلکہ مجرم“ کو وہیں پر پکڑ کر چار تھپڑ بھی مارنا چاہیے، لیکن جب کبھی میں خود جلدی میں ہوتا ہوں، تو اشارہ کاٹ لینا مجھے بالکل بُرا نہیں لگتا۔ ایسے میں ٹریفک وارڈن اگر مجھے پکڑ لے تو میں چاہتا ہوں منت سماجت سے معافی تلافی ہو جانا چاہیے۔ یعنی میں وہ چاہتا ہوں جو کہ دراصل میں نہیں چاہتا۔

ان معمولی روز مرہ کی باتوں کو شاید آپ درخور اعتنا نہ سمجھیں اور مسکرا کر میری بات کو نظر انداز کردیں، لیکن میں اپنی اس حالت سے خاصا پریشان ہوں اور اہل دانش سے اس کا کوئی حقیقی حل چاہتا ہوں۔

اب دیکھئے ساری قوم کی طرح میں بھی اس بات سے متفق ہوں کہ پاکستان کے سارے مسائل کی جڑ اصل میں کرپشن ہے۔ جو لوگ اوپر بیٹھے ہوئے ہیں، وہ پاکستان کا سارا پیسہ لوٹ کر ملک سے باہر لے گئے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ اب یہ جو بڑے لوگ ہیں یہ پکڑے تو جاتے نہیں، اور پکڑے بھی جائیں تو باہر گیا ہوا پیسہ واپس نہیں آ سکتا، اس لئے ان سب کو بغیر کسی ٹرائل کے جھنجھٹ میں پڑے، پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے۔ ایک میں ہی کیا پاکستان میں تو کروڑوں لوگوں کا یہی خیال ہے۔ سوشل میڈیا میں روزانہ دو تین پوسٹیں تو میری اس رائے کی تائید کرتی ہوئی آ ہی جاتی ہیں۔ لیکن ایسا چونکہ کسی قانون کے تحت ہو نہیں سکتا، لہٰزا اس کا ایک ہی حل ہے کہ کُچھ نیک طینت جرنیل اس کام کو سر انجام دیں۔ پر کیا کریں جرنیل تو چار دفعہ یہ کوشش کر چکے۔ انہوں نے کسی بھی کرپٹ آدمی کا سر قلم نہیں کیا۔ بلکہ کرپشن کو ختم کرنے کے لئے جو جرنیل آئے انہوں نے کچھ ہی دیر بعد انہی کرپٹ لوگوں کو حکومت میں اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ اب چار بار کا تجربہ کافی ہوتا ہے۔ اس لئے یہ تو مجھے نہیں چاہیے۔

حال ہی میں کرپٹ سیاستدانوں کو پکڑ کر سزا دینے کی ایک نئی نظیر سامنے آئی ہے، جس میں نواز شریف کے بارے میں یہ یقین ہوجانے کے بعد کہ برطانیہ میں اُن کے بچوں کی جائیدایں در اصل اُنہی کی کرپشن سے کمائی ہوئی دولت سے خریدی گئی ہیں، محض مفروضوں کی بنیاد پر انہیں لمبی سزا سُنا دی گئی ہے۔ بات تو بہت اچھی ہے۔ چلو کسی نے تو پہل کی۔ یہ طریقہ نیک طینت جرنیلوں کے ذریعے پھانسی دینے سے کم تر تو ضرور ہے، لیکن کوئی صورت تو ان بے ایمان سیاستدانوں کو سزا دینے کی سامنے آئی۔ لیکن میرے ایک دوست ہیں پروفیسر صاحب۔ وہ فرماتے ہیں کہ عدالتیں تو نظیر پر چلتی ہیں۔ کل کو کسی نے میرے خلاف بھی کوئی جھوٹا سچا کیس بنا دیا تو اس نظیر کے مطابق مجھے بھی شک کی بنیاد پر سزا دی جا سکے گی۔ اب ظاہر ہے یہ تو مجھے نہیں چاہیے

محترم عمران خان صاحب کا نظریہ بھی دل کو لگتا ہے، کہ اگر اوپر سے کرپشن ختم ہو جائے تو، نیچے سب کُچھ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ نظریہ بھی ”اوپر“ کے تمام کرپٹ لوگوں کو پکڑ کر پھانسی دینے یا بغیر کسی واضح ثبوت کے سزا دینے سے ملتا جُلتا ہے، کہ ان سب میں اوپر سے کرپشن ختم کرنے کے ذریعے پورے نظام کے خود بخود ٹھیک ہوجانے کا تصور ملتا ہے۔ یہی تو مجھے چاہیے، جو جرنیلوں اور عدالتوں کے ذریعے سے ہو نہیں پایا۔ دل خوش ہو گیا! لیکن پروفیسر صاحب ہر بات کا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ وزیراعظم کے دیانتدار ہو جانے سے بھلا انکم ٹیکس انسپیکٹر، تھانیدار، پٹواری اور عدالت کا ریڈر کیسے ایماندار بن جائے گا؟ تو میرے پاس اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہوتا۔ میں نحیف آواز میں انہیں احتساب کمیشن کا ادارہ یاد دلاتا ہوں، تو وہ پوچھتے ہیں کہ کیا ایف آئی اے، اینٹی کرپشن، اور نیب جیسے ادارے پہلے سے موجود نہیں ہیں، اور اُنہوں نے کیا تیر مار لیا، تو میرے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں ہوتا، بلکہ وہ تو مجھے پختونخوا کے نہ چل سکنے والے احتساب کمیشن کی یاد بھی دلاتے ہیں۔ اگر اوپر کی کرپشن ختم ہو جانے کے بعد بھی نیچے کی کرپشن ایسے ہی رہے گی، تو مجھے اس کا کیا فائدہ؟ یہ تو مجھے نہیں چاہیے۔ پنجابی کا ایک محاورہ کہتا ہے کہ گوری ہمارے ہاتھ سے نکل گئی تو اُسے چاہے قصائی لے جائیں، ہمیں اس سے کیا!

جی تو بہت چاہتا ہے کہ کوئی سیدھا سا نسخہ ہو، کم خرچ بالا نشین! بس آپ برائی کی جڑ پر ہاتھ رکھیں، چھوٹی سی ایک تبدیلی کریں، اور ہر چیز ٹھیک ہو جائے۔ کرپشن ختم ہو اور پیسے کی ریل پیل ہو جائے، مجھے کہیں رشوت نہ دینی پڑے، بے روزگاری ختم ہو جائے، رہنے کو مکان نہیں تو چھت ہر کسی کے لئے ہو، پیٹ بھرنے کو کھانا اور پینے کو صاف پانی ملے، اور سب سے بڑھ کر مجھے ایک انسان کی حیثیت سے عزت نصیب ہو۔ لیکن پروفیسر صاحب نے میرا سارا رومانس ختم کردیا ہے۔ انہوں نے مجھے یقین دلا دیا ہے کہ میری سوچ میں کوئی بنیادی خرابی ہے۔ میں ہمیشہ وہ چاہتا ہوں جو دراصل میں نہیں چاہتا۔ تو صاحبو آپ میں سے جو دانا ہیں، جو حقیقتاً وہی چاہتے ہیں جو دراصل انہیں چاہیے، وہ میری بھی راہنمائی کریں تاکہ میں بار بار ٹھوکر کھا کر اپنی اور دوسروں کی نظروں میں شرمندہ ہونے سے بھی بچ جاؤں اور عزت کی خوشحال زندگی گزارنے کی بھی کوئی صورت نکل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).