احمدی اور انتخابات


پیارے پاکستانیو !

آپ سوچتے ہونگے کہ پاکستانی الیکشن میں حصہ کیوں نہیں لیتے ، ووٹ کا حق کیوں نہیں استعمال کرتے ، دُنیا کے بہترین نظام حُکمرانی یعنی جمہوریت میں اپنا حصہ کیوں نہیں ڈالتے ،

دراصل ،

سابق جمہوری وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو صاحب نے کی میں احمدیوں کو قومی اسمبلی کے ذریعے غیر مسلم قرار دے دیا ،

جی ٹھیک ہے ، ہم نے مان لیا ، اور اس مسئلہ کو ڈیبیٹ ایبل سمجھ کر آگے چل دئے کہ جو اسمبلی احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے رہی ہے ، کل کو دلائل سے قائل ہوکے اپنا قانون واپس بھی لے سکتی ہے ، قوانین بنتے اور بدلتے رہتے ہیں۔

1974 سے 1984 تک ہم احمدی مملکت خداد کے ہر شعبہ میں باقی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے تھے ، اپنے فرقہ کی تبلیغ بھی کرتے تھے ، حق سچ کا ساتھ کُھل کر دیتے تھے ، اخباروں اور ٹی وی پر ہماری باقاعدہ نمائندگی تھی ، بڑے بڑے عہدوں پر قابلیت کی بُنیاد پر براجمان بھی تھے ،

یہاں تک کے اہم ترین عہدہ وزارت خارجہ کا قلمندان ایک احمدی گھرانے کے سپوت جناب سر ظفراللہ خان صاحب کو محترم قائداعظم نے خود سونپا ، جس کی قائدانہ صلاحیتوں کا مشرق وسطی تک معترف ہے ،

وزارت خزانہ کا اہم ترین عہدہ بھی ایک احمدی کے حصہ میں آیا ، جن کی معاشی پالیسیوں کا یہ عالم تھا کہ اُن کے دور میں پاکستان جرمنی کو قرضہ دیتا ہے ،

تو بگاڑ کہاں اور کب پیدا ہوا ؟

1974 کے بعد اور 1984 سے پہلے تک پاکستان کا آئین احمدی مُسلمانوں کو یہ حق دیتا تھا کہ وہ جس عقیدہ پر چاہیں عمل کریں ، اپنے مذہب اور فرقہ کو جس نام سے چاہیں پُکاریں ، تمام دوسری اقلیتوں کی طرح اپنی عبادت گاہیں بنائیں ، اُن پر جیسا چاہیں ڈئزائین بنائیں ، جس مرضی طریقہ کے تحت چاہیں عبادت کریں ، نمازیں پڑھیں ، روزے رکھیں ، بڑی عید پر قربانی کریں ، چھوٹی عید پر محلے میں سویاں پہنچائیں ، اپنے گھروں کے باہر ھذا من فضل ربی لکھیں ،

1984 تک ہم احمدی اس معاشرے کے مکمل فرد کی حیثیت سے جی رہے تھے ( لیبل اقلیت کا ہی تھا ) لیکن اُس کے بعد آئے تاریخ کے بدترین ڈکٹیٹر جناب ضیاءالحق صاحب ،

آپ نے 1973 کے آئین میں ترمیم کرکے امتناع قادیانیت قانون متعارف کروایا ، جس میں جماعت احمدیہ کی آذادی مکمل طور پر سلب کرلی گئی ، یہ آرڈینینس نہ صرف احمدیوں کے بُنیادی انسانی حقوق کی پامالی کرتا تھا بلکہ خود آئین پاکستان کی شق نمبر ٢٠ سے متصادم تھا ،

جو کہتا ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے ، اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہوگا ،

جبکہ احمدی اس ترمیم کے مطابق خود کو مُسلمان نہیں کہ سکتے ، عبادت گاہ نہیں بنا سکتے ، تبلیغ نہیں کرسکتے ، السلام و علیکم نہیں کہ سکتے ، حج پر نہیں جا سکتے ، نماز نہیں پڑھ سکتے ،

اب آپ ہی بتائیے ، جو اسمبلی ہمیں اقلیتوں کے برابر بھی حقوق نہیں دیتی ، ہم اُس کا حصہ کیونکر بنیں ، جو نظام ہمیاری ووٹر لسٹیں تک سب سے الگ بناتا ہے ، جہاں باقاعدہ حلف نامہ کے ذریعے ہمیں اپنے آپ کو اپنے آقاء و مذہبی پیشوا حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اظہار لا تعلقی کرکے ووٹ ڈالنے کو کہا جاتا ہے ،

پیارے ہم وطنو !

دُنیاوی عہدوں اور آسائیشوں کی لالچ سے مبرا جماعت ، جماعت احمدیہ قربانی دیتی آئی ہے اور قربانی دیتی رہے گی ، پُرامن احتجاج جس میں ووٹ نہ ڈالنا اور اس نظام کا حصہ نہ بننا شامل ہے کرتی رہے گی ،

جب تک ہمیں ہمارے مذہب کی تبلیغ کی اجازت ، ہمیں نماز پڑھنے کی اجازت ، السلام علیکم کہنے کی اجازت ، دروازے پر ھذا من فضل ربی لکھنے کی اجازت اور اپنے آپ کو مسلمان کہنے کی اجازت نہیں مل جاتی ، ہم ووٹ نہیں دیں گے ، اس نظام سے لاتعلق ہی رہیں گے ،

اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو ،

رانا بشارت رحمان
Latest posts by رانا بشارت رحمان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).