آپ کا ووٹ ملک کو بنا بھی سکتا ہے اور تباہ بھی کر سکتا ہے


ایک صاحب کافی عرصہ بعد اپنے گاؤں پہنچے، راستے میں ہی انھیں اپنا نوکر مل گیا۔
نوکر سے انہوں نے اپنے گھر کے حالات پوچھے تو نوکر بولا
باقی سب خیریت ہے بس آپ کا کتا مر گیا ہے
وہ صاحب بولے میرا کتا مر گیا ہے مگر کیسے؟
جناب آپ کے مرے ہوئے گھوڑے کا گوشت کھا کر کیسے زندہ رہ سکتا تھا۔

تو میرا گھوڑا بھی مر گیا؟
بھوک سے مر گیا جناب بھوک سے
مگر میں تو تمہیں اس کے راشن کے لیے پیسے دے کر گیا تھا وہ کہاں گئے؟
وہ تو آپ کی والدہ کے کفن پر لگ گئے
تو کیا میری والدہ کا بھی انتقال ہو گیا ہے؟
جی ہاں وہ دو ماہ کے پوتے کا غم کیسے برداشت کرتیں!

ہائے اللہ میرا بچہ بھی مر گیا ہے؟ جی ہاں ماں کے بغیر بھلا بچہ کیسے زندہ رہتا!
تو میری بیوی بھی چل بسی؟ جناب گھر کی چھت گری تھی وہ کیسے بچتی۔
اف خدایا۔ کچھ بچا بھی ہے؟ جی ہاں میں بچا ہوں اور صحیح سالم آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔

آج ایسے ہی اپنی پرانی ڈائری کی ورق گردانی کرتے ہوئے جب یہ لطیفہ نظر سے گزرا تو میں چونک کر رہ گیا۔ یہ لطیفہ، یہ کہانی مجھے اپنی اپنی سی لگی۔ مجھے یوں لگا جیسے اس میں میرے ہی وطن عزیز کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ میں نے نوکر کی جگہ گزشتہ کچھ حکمرانوں کے نام ڈال کر اس کہانی کو دوبارہ پڑھا تو مجھے یہ کہانی حقیقت لگنے لگی۔

ملک ڈوبتا رہا، کرپشن ہوتی رہی، بے روزگاری بڑھتی رہی، بھوک سے لوگ مرتے رہے، ڈالر اونچی اڑان بھرتا رہا، سسٹم مفلوج ہوتا رہا، ایک ایک کر کے تمام ادارے ناکارہ ہوتے گئے لیکن نہ ہی ان حکمرانوں کی شان و شوکت میں کچھ کمی آئی اور نہ ہی ان کے کاروبار متاثر ہوئے۔ یہ صحیح سالم رہے اور ملکی وسائل کو ڈکارتے رہے۔ ملک غریب ہوتا رہا اور یہ امیر ہوتے گئے۔ نہ انہیں اس گھر کے مکینوں سے کچھ دلچسپی تھی اور نہ ہی اس گھر کے درو دیوار سے۔ اگر کچھ دلچسپی تھی تو وہ تھے صرف ان کے ذاتی مفادات جو بڑی عمدگی سے اچیو کرتے رہے۔

حکمرانوں کے انتخاب میں ہمیں کم از کم وہ معیار تو رکھنا چاہیے جو ہم گھر کے ایک اچھے چوکیدار یا سیکورٹی گارڈ کو منتخب کرتے وقت رکھتے ہیں مثلاً ایک اچھا چوکیدار اسے سمجھا جاتا ہے جو دیانت دار ہو، ہر وقت چوکنّا رہتا ہو، اگر آپ کی جان کو کچھ خطرہ ہو تو وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آپ کی حفاظت کرنا جانتا ہو، آپ کے مال کی ٹھیک سے نگرانی کرنا جانتا ہو، آپ کی اجازت کے بغیر آپ کے گھر کی کوئی چیز استعمال نہ کرتا ہو، آپ کے وسائل کو ضائع ہونے سے بچاتا ہو مثلاً اضافی لائٹس بجھا دیتا ہو، اگر پانی کا نل کھلا دیکھے تو اسے بند کر دیتا ہو۔

گھر کی اگر کوئی چیز خراب ہو جائے تو بروقت اس کی نشاندہی کر دیتا ہو۔ یہ کم سے کم معیار ہے جو ہم ایک چوکیدار کو منتخب کرتے وقت اپناتے ہیں اس کے علاوہ اگر وہ چوکیدار پڑھا لکھا ہو تو سونے پہ سہاگہ تصور ہو گا اور اگر دیندار بھی ہو تو یہ آپ کی خوش نصیبی ہو گی۔ ایک کالونی کا محافظ چننا ہو تو معیار کچھ اور بڑھ جاتا ہے اسی طرح شہر کے محافظ کے لئے شرائط کچھ اور کڑی ہو جاتی ہیں لیکن جب بھی اس پیارے گھر پاکستان کے نگہبان چننے کی باری آئی ہم نے غفلت برتی اور نا اہل ترین محافظوں کو چنتے گئے جنہیں اس گھر کی حفاظت کا کوئی احساس نہ تھا۔ ہم بار بار دھوکہ کھاتے رہے۔ ہم اس گھر کے تحفظ کی ذمہ داری ایسے ملازموں کو سونپتے گئے جو اپنی آنکھوں سے اس گھر کی تباہی اور بربادی کا منظر دیکھتے رہے لیکن خود بلکل محفوظ رہے۔

الیکشن میں چند دن باقی ہیں۔ اس بار اپنے قیمتی ووٹ کی امانت کسی ایسے نگہبان کو سونپ دیجیئے جسے اس پیارے گھر پاکستان کی حفاظت کا احساس ہو، جو اس ذمہ داری کو نبھانے کی اہلیت رکھتا ہو، جس کی وفاداریاں مفادات کے ساتھ نہیں بلکہ گھر کے ساتھ ہوں، جو اس گھر کی دیواروں اور چھتوں کو مضبوط رکھنے کے جتن کر سکے، جو کرپٹ نہ ہو، جو دیانت دار ہو، جو ملک و قوم کے لئے مخلص ہو، جو انصاف پسند ہو، جو عالمی مسائل پر گہری نظر رکھتا ہو، جو اپنے وطن کے لئے دنیا کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ رکھتا ہو، جو اداروں کو درست کرنے کی بات کرتا ہو، جو کشمیر کے مؤقف پر دو ٹوک رویہ رکھتا ہو، جو ایک تعلیمی نظام کی بات کرتا ہو اور جو غربت اور جہالت کے اندھیروں کو مٹانا چاہتا ہو۔

عمران خان کی تمام تر خامیوں کے باوجود ان میں یہ تمام خوبیاں نظر آتی ہیں جو ان کو باقی راہنماؤں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اگر کسی راہنما میں یہ سب خوبیاں موجود ہوں تو اس شخص کی ذاتی زندگی کی خامیوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ اس شخص کے ارد گرد الیکٹ ایبلز کا جھرمٹ ہے۔ وہ نان الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دے کر بھی قوم کا رد عمل دیکھ چکے ہیں لیکن اقتدار میں آتے ہی خان صاحب کو بھی وہی کرنا چاہیے جو مہاتیر محمّد نے کیا تھا۔

مہاتیر محمّد کے ارد گرد بھی کرپٹ وزراء کا جھرمٹ تھا، چونکہ وہ خود کرپٹ نہیں تھے اس لئے اقتدار میں آتے ہی انہوں نے قانون سازی کے ذریعے سب کرپٹ وزراء کو کیفریکردار تک پہنچا دیا تھا۔ اس کی تفصیل ان کی خود نوشت ” اے ڈاکٹر ان دا ہاؤس ” میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اور دوسرا خان صاحب کو آئندہ الیکشن سے پہلے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم بھی متعارف کروا دینا چاہیے جس کا مطالبہ خود خان صاحب کرتے رہے ہیں تاکہ دھاندلی کے الزامات ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں اور تیسرا اور اہم کام قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے حوالے سے سخت قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ صرف وہ لوگ سامنے آئیں جو خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں باقی جو صرف اقتدار کا مزہ چکھنا چاہتے ہوں وہ دور ہی رہیں۔

اور یہ سب تب ممکن ہو سکے گا جب آپ اپنا محافظ بدلیں گے۔ ایک دفعہ گھر کا محافظ بدل کے تو دیکھیے، آپ ہی کے ایک ووٹ سے فرق پڑے گا۔ یاد رکھیئے یہ دراصل آپ کا ہی ایک ووٹ ہے جو میر کارروں کے انتخاب کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس دفعہ اگر ہم درست فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہمارا یہی گھر ایک شاندار گھر بن جائے گا۔ ایک ایسا پاکستان جہاں نہ کرپشن ہو گی اور نہ بدامنی، جہاں لوگوں کی جان محفوظ ہو گی، جہاں لوگوں کا مال محفوظ ہو گا، جہاں قانون کی حکمرانی ہو گی، جہاں تعلیم عام ہو گی اور ہمارا یہ وطن عزیز ایک اسلامی فلاحی ریاست کا نقشہ پیش کرے گا۔

اگر خدا نخواستہ اس بار بھی ہم نے غلط ووٹ ڈال کر محافظ کے انتخاب میں وہی غلطی دہرائی جو برسوں سے دہراتے چلے آ رہے ہیں تو پھر ہمارے پاس اس گھر کی تباہی پر رونے اور واویلا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).