اس جولائی کا الیکشن بھی خون مانگ رہا ہے


آج سے ٹھیک دس سال پہلے کی بات ہے۔ شام کا وقت تھا اور لیاقت باغ عوام سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہر شخص آنکھوں میں امید لیے موجود تھا تھی۔ ایک خاتون اپنی گاڑی کے سن روف سے باہر نکلیں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں مزید جوش بڑھا رہی تھی۔ ہر شخص اسی کو دیکھ رہا تھا۔ اس نڈر خاتون کی آنکھوں میں بہادری کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کے میں آگئی! اس ملک کو بچانے اپنے عوام کے بیچ اپنے لوگوں کو قید سے آزاد کرانے۔ مگر ایک زوردار آواز آئی گولی چلی اور ایک خوفناک دھماکہ ہوا۔ دھماکےکی آواز سے ہلاکتوں کا منظر ٹھیک ویسا ہو گیا جیسا 16 اکتوبر 1951 میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گولی لگنے کے بعد تھا! تب بھی محب وطن کو نشانہ بنایا گیا تھا اور 27 دسمبر 2007 کو بھی ایک محب وطن کو بزدلانہ کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت کی خبرجنگل کی آگ کی طرح پھیلی گئی۔ ہر چہرہ افسردہ، ہر دل زخمی، ہر آنکھ اشک بار تھی۔ البتہ یہ حملہ محترمہ پر پہلا حملہ نہیں تھا۔ اٹھارہ اکتوبر کو بھی ان پر کارساز کے مقام پر حملہ ہوا تھا۔ خوش قسمتی میں محترمہ بے نظیر بھٹو تو محفوظ رہیں البتہ کئی لوگوں نے اپنی جان گنوادی۔ محترمہ طالبان کی ہٹ لسٹ پر تھیں یہ بات وزارت داخلہ پہلے ہی بتا چکی تھی لیکن انہیں محفوظ رکھنے کے لیے معقول سکورٹی فراہم نہ کی گئی۔ محترمہ ڈرنے والی نہیں تھیں وہ ڈٹ گیں اور ان کی قربانی نے ملک کے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ رکیں گے نہیں آگے بڑھیں گے۔ ووٹ کی طاقت سے پانچ سال کی منتخب حکومت آئی اور وفاق پیپلزپارٹی کو مل گیا۔

منتخب حکومت نے پانچ سالہ دور میں کئی نشیب و فراز دیکھے۔ اللہ اللہ کرکے حکومت کی مدت ختم ہوئی اور 2013میں لکشن کا اعلان ہوا۔ مگر 11 مئی کے الیکشن سے پہلے خون چاہیے تھا۔ تاکہ لوگ ڈر جائیں اور اس بار زمین تھی خبر پختونخوا کی اے این پی کے رہنما بشیر بلور نشانہ تھے! 22 دسمبر کا دن بھی الیکشن سے پہلے خون میں لال ہوگیا اور عوام مزید ایک وطن کے حقیقی سپاہی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ عوام پھر بھی نا ڈرا باہر نکلے اور اپنا حق ادا کیا۔ لیکن 2012 کا وہ وقت کون بھولے؟ یہ الیکشن بھی خون مانگ رہا تھا۔ 22 دسمبر بشیر احمد بلور سمیت کئی جانیں لے گیا! بشیر بلور پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا پانچ حملے ہوئے تھے۔ اس دوران ملک میں تقریباً 100 حملے ہوئے تھے اور صرف 40 تو اے این پی پر ہوئے۔ 300 لوگ ان حملوں کی نذر ہوئے جن میں 110 اے این پی سے تھے۔

الیکشن ہوئے اور نون لیگ پانچ سال کے لیے اقتدار میں آئی۔ جمہوریت کا پہیہ تو آگے چل پڑا مگر قربانیوں کے بعد۔ الیکشن کا موسم پھر آگیا ہے تاریخ 25 جولائی کی طے ہوئی ہے۔ مگر 25جولائی خون مانگ رہا ہے! آغاز ہوا ہے ہارون بلور پر حملے سے۔ ہارون بلور اپنے والد بشیر بلور کی طرح جواں مردی سے لوگوں کے درمیان گئے اور بزدل نے ان پر حملہ کردیا یوں قوم کا ایک اور سپوت منوں مٹی تلے جا سویا۔ یاد رہے کہ بلور فیملی بھی دہشت گردوں کے نشانے پر کئی سالوں سے ہے۔

یہ سلسلہ تھما نہیں۔ اکرم درانی کے قافلے پر ہوا۔ خوش قسمتی سے اکرم درانی تو محفوظ رہے البتہ کئی جانیں اس حملے کی نظر ہوگئیں۔ سلسلہ رکا نہیں! افسوس کہ یہ قوم ابھی اس سے باہر باہر آ ئی نہیں تھی ایک اور حملہ ہوا اور اب کی بار نشانہ تھے سراج رئیسانی! قوم کے اس بہادر سپاہی نے 128 افراد کے ساتھ جام شہادت نوش کیا! ملک میں صف ماتم بچھ گئی۔ زخم ابھی تازہ ہے اسے بھرنے میں وقت ضرور لگے گا مگر ڈر اس بات کا ہے کہیں قربانیوں کا سلسلہ نہ رکا تو کیا کریں گے؟

یاد رہے کہ شہید جمہوریت سے لے کر آج کے دن تک وزارت داخلہ لسٹ جاری کرتی ہے جس میں کئی شخصیات کے نام جو دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر موجود ہوتے ہیں۔ ان میں کئی صحافی بھی موجود ہیں۔ مگر انہیں معقول سکیورٹی فراہم نہیں کی جاتی۔ سخت ناخوش بات یہ ہے کہ وہ بھی اپنی سکیورٹی کو خود محفوظ نہیں بنا پاتے۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی بڑی شخصیت پر حملہ ہوتا ہے تو الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں۔

البتہ افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور نگران وزیراعظم کو ٹیلیفونی رابطہ میں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ الیکشن کے پیش نظر باڈر پر سیکورٹی بڑھادی جائے گی۔ نکٹا بھی امیدواروں کو تحفظ فراہم کرنے کا اعلان کر چکا ہے یہی نہیں انتخابی عمل کے دوران کسی بھی بڑے حادثہ سے بچنے کے لیے خود پاک فوج ڈیوٹی سر انجام گی۔

مرحلہ مشکل ہے مگر ہمیں اسے طے کرنا ہے۔ ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے اس خوف سے دور جانا ہے اس ڈر کو مٹانا ہے اور دشمن کی بزدلانہ کارروائیوں کا جواب جرآت مندی سےدینا ہے۔ جو لوگ دھماکوں کی وجہ سے ہم میں نہیں ان کو ہم واپس نہیں لا سکتے البتہ ان کی قربانیوں کو ہم بچا سکتے ہیں ووٹ ڈال کر کیونکہ ملک دشمنوں کی موت اور ہماری قومی زندگی الیکشن کے بر وقت انعقاد سے ہی ہے! ترقی کی دیوار میں جمہوریت خشت اول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).