امریکا اور طالبان، مذاکرات کے لئے مثبت اشارے


مغربی میڈیا کی تازہ رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی سفارتکاروں کوطالبان سے براہ راست امن مذاکرات شروع کرنے کی ہدایات دی ہیں تاکہ افغانستان میں سترہ سال جنگ کا خاتمہ کیا جاسکے۔ ابھی تک اس سلسلے میں باضابطہ اعلان تو نہیں کیا گیا لیکن حال ہی میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو اور افغانستان میں امریکی فوجی کمانڈرجنرل جان نکولسن نے طالبان سے مذاکرات کا عندیہ دیا تھا۔

طالبان نے براہ راست مذاکرات سے متعلق رپورٹس پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا جواب مثبت ہوگا تاہم قطرمیں طالبان دفترکے ایک نمایندے نے رابطے پر ”ہم سب“ کو بتایا ہے کہ امریکا نے اس سلسلے میں اب تک طالبان کے سیاسی دفتر سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کا مطالبہ ہے کہ مذاکرات سے پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی فہرست سے طالبان رہنماؤں کے نام نکالے جائیں تاکہ وہ آزادانہ نقل وحرکت کرسکیں۔ طالبان ذرائع کے مطابق اگر مذاکرات کا فیصلہ ہوتا ہے تو آغاز قطر کر دفتر سے کیا جائے گا۔ بعد میں ایک اور اعلی سطحی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی جائے گی۔

اس کے لئے ان کا مطالبہ ہے کہ طالبان رہنماؤں سے سفری پابندیاں ختم کی جائیں تاکہ وہ مذاکرات کا حصہ بن سکیں۔ طالبان کے نمایندے نے قطر دفتر کو کھولنے کا مطالبہ بھی دہرایا جو کہ2013 میں کھولنے کے بعد اس وقت افغان صدر حامد کرزئی کے احتجاج کی وجہ سے چند روز بعد بند کردیا گیا تھا۔ حالانکہ کرزئی خو طالبان سے رابطوں کے لیے ان کے ایڈرس کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔

بظاہر کرزئی کو طالبان کے دفتر پر سفید جھنڈے اور اسلامی امارت کے نام پر اعتراض تھا جو طالبان افغانستان پر 1996 سے 2001 تک اپنے دور حکمرانی میں استعمال کیا کرتے تھے۔ لیکن شاید حامد کرزئی کو احساس ہوگیا تھا کہ امریکا ان کو نظرانداز کرکے طالبان سے براہ راست معاملات طے کرنا چاہتا ہے۔ دفتر کھلنے کے بعد سابق صدر بارک اوبامہ نے طالبان سے مذاکرات کے لئے وفد بھیجنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن سیاسی عمل شروع نہ ہوسکا۔

حامد کرزئی افغانستان پرتقریبا بارہ سال حکومت کرنے والے رہنما ہیں لیکن 2014 میں صدر اشرف غنی کو اقتدار منتقلی کی تقریب میں طالبان سے امن مذاکرات شروع کرنے میں اپنی ناکامی کو تسلیم کیا لیکن ساتھ امریکا اور پاکستان پر الزام لگایا کہ دونوں نے اس سلسلے میں مدد نہیں کی۔

طالبان کرزئی پر اس لئے اعتماد نہیں کرتے تھے کہ انہوں نے 2001 میں قندھار شہرخالی اور مقامی مشران کو حوالے کرنے کے دوران شاہ ولی کوٹ کے مقام پر طالبان سے معاہدہ کیا تھا کہ پرامن زندگی گزارنے والے طالبان کو کچھ نہیں کہا جائے گا لیکن کرزئی سے معاہدے کے باوجود طالبان رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے اور گرفتاریاں شروع ہوگئی تھی۔ جس کی وجہ سے طالبان گھر چھوڑ کر یا تو پہاڑوں پر چلے گئے یا پاکستان کے ساتھ اس وقت کھلی سرحد کی وجہ سے قبائیلی علاقوں میں داخل ہوگئے۔

طالبان نے غیرملکی افواج کے خلاف 2003میں مسلح مزاحمت شروع کی تھی۔ طالبان کی مزاحمت طوالت اختیار کرگئی ہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیا امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافے اور طالبان کے خلاف فضائی حملوں میں شدت کے باوجود طالبان کو کمزور نہیں کیاجاسکا۔

کانگرس کے لئے امریکی فوج کی تازہ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ افغانستان کے 407 اضلاع میں حکومت کو 229 پرکنٹرول حاصل ہے جبکہ طالبان کا59 پر کنٹرول ہے جبکہ119 دیگر اضلاع کو بھی طالبان کی کارروائیوں کی وجہ سے خطرات لاحق ہیں۔

صدر ٹرمپ نے گزشتہ سال دسمبر میں سیکیورٹی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں میدان جنگ میں نتائج حاصل کیے جائینگے۔ اس سے پہلے اگست میں افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ موثر فوجی کارروائی کے بعد طالبان کے ساتھ سیاسی حل ممکن ہوگا۔

افغان پالیسی کے اعلان کے تقریبا ایک سال بعد فوجی اپشن تو کامیاب نہ ہوسکا لیکن شاید ٹرمپ انتظامیہ نے ادراک کرلیا ہے کہ سیاسی حل کا آپشن استعمال کرنے کا وقت اگیا ہے۔ یہ مثبت تبدیلی ہے اور حل کا واحد راستہ بھی۔

اب امریکا کو طالبان سے براہ راست مذاکرات کے لئے باظابطہ اعلان کرنا چاہیے۔ افغانستان میں مذاکرات کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کے بعد افغانستان میں جنگ کے خاتمے کی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں۔ طالبان کو بھی سمجھنا پڑے گا کہ جنگ سے عام افغانوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔

افغان طالبان اب اپنی پالیسی میں تبدیلی لاکر افغان قوم کو چالیس سال سے جاری جنگ سے نجات دلادیں۔ پاکستان، ایران اور دیگر سٹیک ہولڈرز بھی اپنے مفادات کی بجائے افغانستان پر رحم کریں۔ پاکستان نے تو ویسے بھی اب دوطرفہ مذاکرات کے نئے میکنزم میں افغانستان میں افغانوں کی قیادت میں امن عمل کی حمایت کا وعدہ کیا ہے۔ اب یہ وعدے کاغذ تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ ان کے لیے عملی اقدامات بھیکیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).