ختم نبوت پر سیاست کا انجام


قادیانیوں کی تکفیر کی علمی بنیاد فراہم کرنے والے غلام احمد پرویز نے قرآن فہمی کا جو طریقہ کار اختیار کیا تھا وہ انہوں نے ان کے بقول علامہ اقبال سے سیکھا تھا اور اس طریقہ کار کی روشنی میں ادارہ طلوعِ اسلام پرویز صاحب اور ان کے مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے دیگر احباب کی کتب شائع کرتا رہا ہے۔ قرآن پر پرویزی و اقبالی انداز میں تحقیق آج جاری ہے اور وہ پرویز جن کی نبوت کی تعریف کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فاضل جج محمد اکبر نے پہلی مرتبہ قادیانیوں کی تکفیر کی بنیاد رکھی تھی اور وہ جو خود اس کا کریڈیٹ لیا کرتے رہے آج انہی کے مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے محققین ِ قرآن، خود انہی کے طریقہ کار کی روشنی میں ’آگے ‘ بڑھتے ہوئے عقیدہ ختم نبوت کے قائل نہیں رہے۔

اس کا ثبوت فروری 2011 میں شائع ہونے والا رسالہ ”خاتم النبیین قرآن خالص کی روشنی میں‘‘ ہے جو سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں لکھا گیا اور جس میں غلام احمد پرویز کے مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے معاصر محقق اورنگ زیب یوسفزئی نامی کسی عالم نے لاہور کے ڈاکٹر قمر زماں کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے غلام احمد پرویز کے اسلوب میں لکھا :

” خاتم النبیین کی قرآنی اصطلاح کا ترجمہ ہماری روایتی تفاسیر میں سے اکثر میں تقریباّ درست ہی درج کیا گیا ہے یعنی ”نبیوں یا نبوت کی مہر“۔ البتہ مذہبی پیشوائیت کی طرف سے قوسین کے اندرکیے جانے والے من مانے اضافوں سے اس کا مفہوم اپنی اصل سے بہت دور لے جایا جا چکا ہے۔ ”مہر“ کا معنی ”آخری“ یا ”اختتام“ اخذ کر لیا گیا ہے اور آقائےنامدار کو ”نبیوں کی مہر“ کے حقیقی قرآنی لقب سے محروم کرتےہوئے، ”آخری نبی“ قرار دے کر، اس نظریے کو ایمان کا جزو بنا دیا گیا۔

اسی بنیاد پر مسئلہء ختم نبوت ایک حساس مذہبی محاذ آرائی کا موضوع بنا رہا۔ ناقص علم پر مبنی تنگ نظری کے باعث کسی بھی جھوٹے مدعی نبوت کے لغو دعوے کو فضول اہمیت دے کر، بلا جواز آقائے نامدار کی حرمت و منصب پر حملہ قرار دے دیا گیا۔ گویا اس عظیم الہامی مندوب کی ناقابل رسائی ودسترس عظمت کو قابل دست اندازی فرض کرنے کے گناہ کا ارتکاب کیا گیا۔ اور اسی مفروضے کی آڑ لے کر تحاریک برپا کی گئیں۔ عوام الناس کو گمراہ کرتے ہوئے ان کے مذہبی جذبات کو اشتعال دے کر ذاتی اقتدار اور انا پرستی کی خاطر ہنگامہ آرائیوں اور فتنہ پروریوں کو فروغ دیا گیا۔ غرضیکہ وہ سب کیا گیا جو کلام اقبال کے اس ذومعنی مصرعے کے مصداق تھا کہ : ” دین ملّا فی سبیل اللہ فساد۔ “۔

محقق آگے چل کر مسلمانوں سے سوال اُٹھاتا ہے :
”آخری نبی کا دعویٰ تو اتنا عام ہے کہ ہر مذہبی گروپ اپنے اپنے نبی کو آخری یا فائنل ماننے کا دعویدار ہے۔ مسلمان مذہب پرستوں نے بھی اسی روایت کا اتباع کر کے کونسی نئی حقیقت کا انکشاف کیا ہے؟ ‘‘

درج بالا گفتگو سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ پارلیمنٹ ہو یا پھر عدالت اس کا کام الہٰیاتی یا مابعد الطبیعاتی مسائل حل کرنا نہیں روزمرہ مسائل اور قانونی امور پر فیصلے کرنا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی ان سے کافر، مسلمان اور نبوت کے فیصلے کرانے پہنچ جائے گا تو عدالت قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے اصطلاحات کی تعریف پوچھے گی اور تعریف کے سلسلے میں مثل مشہور ہے کہ ڈیفائن کرنا محدود کرنا ہے (to define is to delimit)۔

اگر عدالتیں اور پارلیمنٹ الہٰیاتی اور مابعد الطبیعاتی معلامات اور کسی مذہب کے ہاں مقدس سمجھی جانے والی اصطلاحات پر فیصلے دیں گی تو یہ اصطلاحات تنگ ہوجائیں گی۔ اتنی تنگ کہ ان میں کوئی بھی نہیں سما سکے گا۔ اس مشکل کو دیکھتے ہوئے معاصر سائنس میں کسی بھی تعریف کو مطلق نہیں، کیونکہ تعریف کسی بھی اصطلاح کا مکمل احاطہ نہیں کرسکتی، بلکہ عبوری تعریف (working definition) سمجھا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ تعریف متحرک ہوتی ہے جامد نہیں لیکن اس کے برعکس عدالتی فیصلے متحرک نہیں ہوتے۔ یہ فیصلے مثل (precedent) بن جاتے ہیں اور انہیں بار بار دھرایا جاتا ہے جبکہ تعریف بدل جاتی ہے۔ اس لئے اگر ریاستی اداروں کو تکفیر اور ارتداد جیسے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا تو مذہبی طبقات اپنی مقدس اصطلاحات کو بے معانی کر بیٹھیں گے۔ متفقہ علیہ تعریف نہ ملنے پر ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ ان اصطلاح کو لغو سمجھ لیں اور اگر کسی تعریف کو قبول کرلیا جائے تو یہ اصطلاح کی وسعت کو تنگی سے ہمکنار کرکے اُسے محدود کرسکتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایسی تمام اصطلاحات جن کی تعریف ممکن نہ ہو یا تو بے معانی ہوچکی ہوتی ہیں یا پھر اس قدر وسیع المعانی ہوتی ہیں کہ ان کی تعریف ممکن نہیں ہوتی۔ لہٰذا یا تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسلمان اس قدر وسیع المعانی اصطلاح ہے کہ اس کی تعریف نا ممکن ہے لیکن اگر ہم کسی ایک فرقے یا مکتبِ فکر کی تعریف کو حمتی مان لیں تو ہم اس اصطلاح کو محدود کر بیٹھیں گے۔ اس طرح زمین پر بسنے والے کروڑوں انسانوں کو کافر قرار دے دیں گے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایسا تعلیم یافتہ طبقہ جو ان معاملات کو تنقیدی انداز سے دیکھ رہا ہے، ان اصطلاحات کو بے معانی قرار دے کر مذہب سے کنارہ کشی اختیار کرلے۔

اوپر پیش کی گئی مثالوں اور گفتگو سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان میں مذہبی طبقات کے پاس دو راستے ہیں۔
یا تو وہ تکفیر کا راستہ اختیار کریں اور مذہب کو دوسرے طبقات کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مذہبی اصطلاحات کو بے معانی بنا ڈالیں۔ یا پھر تکفیر کی بجائے تکثیر کا راستہ اختیار کرتے ہوئے یہ تسلیم کریں کہ مذہبی اصلاحات وسیع المعانی ہیں اور ان کی کوئی جامد تعریف طے کرنے سے یہ وقت کے ساتھ بے معانی ہوجائیں گی۔

اگر مذہبی طبقات تکثیر کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو میدان ان لوگوں سے بھرا رہے گا جو بے شک دوسرے مسالک سے تھوڑا بہت اختلاف رکھتے ہیں مگر اختلاف کو مخالفت نہیں سمجھتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر مذہبی طبقات تکفیر کا راستہ اختیار کرتے ہیں، مذہبی اصطلاحات کے معانی و مطالب کے فیصلے عدالتوں میں کرواتے ہیں، تو مسلمانوں سے بھرا میدان ایک دن خالی ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2