اسٹیبلشمنٹ اہلیہ نہیں کہ جان چھڑا لو


نلکے سے پانی کی بالٹی بھر کے دیسی صابن مل کر نہا لیتے تھے اور صاف چادر سے بدن پونچھ لیتے تھے۔ کیکر، جس سے سوندھی مہک والے چھوٹے چھوٹے گول زرد اور بھربھرے پھول بھی کرتے تھے اور گھونسلا بنتے ہوئے بیّے کی چہکار بھی سنائی دیتی تھی، کی چھاؤں تلے بچھی چارپائی پر بیٹھ کر توری، بھنڈی، کریلے کے سالن کے ساتھ روٹی کھا لیتے تھے۔ پھر برآمدے کی چھت تلے گڑے نلکے کے ٹھنڈے پانی سے آدھ بھری بالٹی میں ڈوبے آم، جن کی وجہ سے پانی بالٹی کے کناروں تک آ جاتا تھا، بانٹے جاتے تھے۔

بہن آم بانٹتے ہوئے جو حجم کے مطابق ہر ایک کے حصے میں پانچ سے دس تک آتے تھے، ہمیں سفید کرتے اتار دینے کی ہدایت کرتی تھی۔ اسی چارپائی پر بیٹھ کر آم چوس لیتے تھے ( آم تب کھائے نہیں جاتے تھے، چوسے جاتے تھے ) تب عمر تھی بھی کتنی دس گیارہ سال یعنی 1960 کی دہائی کا آغاز، پھر لائف بوائے صابن آیا، پھر لکس، رکسونا اور کیپری سوپ آ گئے، بدن پونچھنے کو تولیے ملے، ہر ایک کا اپنا اپنا۔

تب تو دانت بھی کیکر کی لکڑی کا کوئلہ چبا کر انگلی سے مانجھے جاتے تھے، یا پھر بادام کے چھلکے کو جلا کر اس میں قلمی شورہ ملا کر انگلی سے ہی دانت صاف کیے جاتے اور مسوڑھے ملے جاتے۔ بعد میں ٹوتھ برش مل گئے سپارکل اور فارہنز ٹوتھ پیسٹ استعمال کیے جانے لگے۔

بڑے شہر سے پہلی بس کوئی نو ساڑھے نو بجے پہنچتی تھی، اخبار امروز یا نوائے وقت کہیں جا کر دس بجے مل پاتا تھا۔ جنگ کراچی سے اول اتا نہ تھا، آتا تو اگلے روز ملتا تھا ویسے بھی جنگ میں لوگوں کی دلچسپی نہیں ہوا کرتی تھی۔

چادر سے بدن پونچھنے، انگلی سے دانت صاف کرنے اور بڑوں کے پڑھنے کے بعد کہیں گیارہ بجے نوائے وقت پڑھنے والے زمانے میں سیاست نام کی چیز تو ہمیں معلوم نہیں تھی مگر مارشل لاء بارے ضرور علم تھا کہ کوئی ایوب خان ہے جس نے قصائیوں اور حلوائیوں کو دکانوں پر جالیاں لگونے بارے سختی کی ہے۔ کسی نے اگر زمین پر تھوک دیا تو فوجیوں نے اس سے کہا کہ اپنی قمیص اتار کے اس کو صاف کرو۔ مارشل لاء کوئی خوفناک شے لگتی تھی کیونکہ ہمارے معزز اور خوشحال ہمسائے کا محلے میں مقبول نوجوان بیٹا، جو کراچی میں پڑھتا تھا، مارشل لاء سے ڈر سے کھڑکی سے کود کر مر گیا تھا، کوئی ایسی ہی بات سنی تھی۔

تیرہ سال کے ہوئے جب سکول کی آٹھویں جماعت میں تھے کہ بچوں کو سکول کے ایک گراؤنڈ میں اکٹھا کیا گیا، ایک چھوٹی میز پر ریڈیو دھرا گیا، پہلی بار ایوب خان کی آواز سنی جو بھاری آواز میں بولے، ” میرے عزیز ہم وطنو، ملک پر بزدل دشمن ہندوستان نے حملہ کر دیا ہے“ اس کے بعد سکول میں چھٹی کر دی گئی تھی، اگلے روز لاہور سے سارے رشتہ دار ہمارے ہاں پہنچ گئے تھے۔

سترہ برس کی عمر میں گورنمنٹ کالج لاہور میں دوسرے سال کے طالبعلم تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا طوطی بولا۔ نوجوان خواب دکھانے والوں کے ساتھ ہو ہی جاتے ہیں ہم بھی بھٹو کے شیدائی تھے۔ چاہے موچی دروازے میں جلسہ ہو یا مال روڈ پر بھٹو کا جلوس، شرکت لازمی کرنا ہوتی تھی۔ اس عمر میں کون کسی سے ڈرتا ہے۔ البتہ ہجوم سے ڈر کا احساس بھی انہیں دنوں ہوا تھا جب جلوس میں کسی کو بھی سی آئی ڈی کا کہنے پر اس کی خوب پھینٹی لگا دی جاتی تھی۔

بھٹو کو برسراقتدار آتے دیکھا اور پھر بر سردار جاتے بھی، جس کے بعد ملک پر موت چھا گئی۔ ایک منحوس جرنیل نے ملک میں ثقافت، سیاست، معیشت، معاشرت کا حقیقی طور پر بیڑہ غرق کر ڈالا۔

اگر بھٹو ایوب خان کے وزیر ہوتے ہوئے آمر کو ڈیڈی کہتے تھے تو ملک کا بیڑہ غرق کرنے والا ایک دوسرے نئے اور جوان وزیر کو اپنا فرزند کہتا تھا۔ جی ہاں، نا اہل کیے گئے اور مجرم قرار دے کر زنداں میں ڈالے گئے میاں نواز شریف ہی تھے جنہیں ضیاع اپنا فرزند اور جانشین کہتا تھا۔

بھٹو نے آمر ایوب کے پاؤں تلے سے قالین کھینچ کر اسے منہ کے بل گرایا مگر نواز شریف کے پاؤں تلے سے قالین ایک دوسرے جرنیل نے کھینچا۔ انہیں جیل میں ڈالا، بات سزائے موت تک گئی مگر سعودی بادشاہ نے بچا کر اپنے ہاں بلا لیا۔ کئی سال جلاوطن رہے پھر بھٹو کی بیٹی بے نظیر پہلے پہنچیں، بعد میں نواز شریف آئے تو انہیں ہاتھ پاؤں باندھ کر واپس بھیج دیا گیا۔ بعد میں جی میں کچھ آیا تو نواز شریف کو وطن آنے دیا گیا۔ بے نظیر قتل کر دی گئیں۔ اقتدار بے نظیر کے رنڈوے شوہر آصف علی زرداری کو ملا۔ ان کے مقرر کردہ ایک وزیر اعظم کو عدالت عظمٰی نے گھر بھیج دیا دوسرے کو عدالت کی بات ماننی پڑی۔ عدالت سے رجوع میاں نواز شریف نے کیا تھا۔

دوسرا انتخاب میاں نواز شریف کے حق میں رہا۔ عدالت کو ہلا شیری تو انہوں نے ہی دی تھی۔ مشرف کے معطل کردہ ججوں کی بحالی میں بھی ان کا ہاتھ تھا، چاہے لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہوئے تھے۔ اب ان کو نیچا دکھانے اور ان کے پاؤں تلے سے قالین کھینچنے کا بندوبست کرکٹ کے سابق کپتان اور کینسر ہسپتال تعمیر کرانے والے عمران خان کے ذریعے کرنے کی داغ بیل ڈالی گئی۔ نواز شریف نے سر نیہوڑائے رکھا تاکہ وہ جمہوری رہنما کے طور پر نام بنا سکیں یا کوئی اور وجہ تھی، کسی سے خائف تھے یا مصلحت اختیار کیے ہوئے تھے۔

عمران خان نے لفظ ”کرپشن“ کی گردان کرنا شروع کر دی اور بالآخر نواز شریف کو سزا دلوانے میں کامیاب رہے۔ میاں صاحب اس آس پر کہ آدھی کو چھوڑ ساری نہ جائے، اچھے بھلے ملک سے باہر گئے واپس آ کر بیٹی مریم نواز شریف اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر سمیت زنداں نشین ہو گئے۔ بندوبست مضبوط تھا، ضمانت کی اپیل بھی الیکشن کے بعد تک ملتوی کر دی گئی۔

ہر طرف شور مچایا جا رہا ہے کہ عمران خان وزیر اعظم ہوئے کہ ہوئے۔ ہو گئے تو کیا وہ نواز شریف کو جیل سے باہر نکلنے دیں گے؟
اب ہم بوڑھے ہو گئے ہیں، شاور تلے خوشبودار صابن سے نہاتے ہیں۔ میز کرسی پر کھانا کھاتے ہیں۔ آم کھاتے ہوئے قمیص نہیں اتارنی پڑتی۔ کسی ایوب خان کا خوف نہیں ہے نہ ہی ”ضیاع“ کے بپا کیے ضیاع کا دھڑکا مگر عدالت عظمٰی نے سب کو اتھل پتھل کیا ہوا ہے۔

عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا کہا جاتا ہے مگر وہ کسی کے چاہے جانے کی پرواہ کب کرتے ہیں۔ آنے دیں انہیں بھی دیکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے، اسٹیبلشمنٹ اہلیہ نہیں ہوتی کہ طلاق دی اور یہ کہہ کر کہ تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی جان چھڑا لی۔ یہ تو ہر ملک کی ایک اور یکتا ہوتی ہے جس کے ساتھ یا تو بنا کے رکھو ورنہ وہ کہہ دے گی دفع ہو جاؤ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).