بنگلہ دیش…   بدلہ دیش بن گیا


\"usmanبنگلہ دیش میں اپوزیشن کے پانچ بڑے رہنماؤں کو سزائے موت دیدی جاچکی ہے جن میں چارجماعت اسلامی کے رہنما شامل ہیں، 73 برس کے بزرگ جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمان کو جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت پھانسی دی گئی جو بذات خود ایک جرم ہے۔

بنگلہ دیش میں ہزاروں سیاسی کارکن قید ہیں، سینکڑوں کو قتل کیا جاچکا ہے، صحافی مارے جارہے ہیں، عدالتیں بظاہر سیاسی فیصلے کر رہی ہیں اور اس سارے عمل کی جہاں ایک جانب زبردست مزاحمت ہورہی ہے، وہیں دوسر ی جانب ڈھاکا کی سڑکوں پر جشن بھی منائے جا رہے ہیں۔

یہ وقت صرف افسوس کے اظہار اور انقلابی شعر پڑھ کر مزید شہیدوں کے لیے تیار ہونے کا نہیں ہے بلکہ یہ سوچنے کا ہے کہ بنگلہ دیش کے حالات اس نہج پر کیوں پہنچے۔

شیخ حسینہ بلاشبہ اس وقت بنگلہ دیش کی ڈکٹیٹر ہے، اداروں پر اس کی گرفت ہے، اس کے فیصلے ردعمل کا نتیجہ ہیں، یہ ردعمل کس چیز کا ہے، اس بات کو جاننے کے لیے شیخ حسینہ کی شخصیت کا مطالعہ ضروری ہے۔

شیخ حسینہ کے پورے خاندان کو 1975میں قتل کردیا گیا، اس کے باپ نے بنگلہ دیش بنایا مگر جنہوں نے اس کے باپ کو قتل کیا، وہی  1996 تک ملک پر حکمرانی کرتے رہے، اس نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کی اور پھر کافی عرصہ نظربند بھی رہی، جب یہ پہلی بارکمزور اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بنی تو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بنگلہ دیش کو دنیا کا سب سے کرپٹ ترین ملک قرار دیا، شیخ حسینہ نے جیسے تیسے اپنے اقتدار کی مدت تو پوری کرلی مگر 2001 کے الیکشن میں اس کو لینڈ سلائیڈ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

شکست کے بعد شیخ حسینہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنی، اس پر قتل اور بھتہ خوری جیسے مقدمات درج ہوئے یہاں تک کہ اسے بھتہ خوری کے الزامات کے تحت گرفتارکرلیا گیا۔

اور 2009 میں شیخ حسینہ پھر برسراقتدار آ گئی، اس کے بعد سے بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے ۔۔ وہ محض انتقام ہی کہا جائے گا۔

اپنے باپ کے قتل اور خود انتقام کا نشانہ بننے کا بدلہ ۔۔ یہ سیاست نہیں ہے ، شیخ حسینہ اپنے ہر سیاسی مخالف کو ملک دشمن قرار دے کر آزادی اظہار کا گلا گھونٹ رہی ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے لیے 70 کی دہائی ایک آسیب کی طرح ہے، سیاسی  و معاشرتی اعتبار سے پاکستان کا سفر بھی حقیقی معنوں میں 70 کی دہائی سے شروع ہوا ہے اور دونوں ممالک کا یہ سفر دہائی کے اختتام تک رک گیا، ایک ملک میں ٹینکو کریٹس کی حکومت آگئی اور دوسرے ملک میں فوجی ڈکٹیٹر۔

دونوں ملکوں میں بحالی جمہوریت کی تحریک چلی اور نتیجے میں کچی پکی ایسی جمہوریتیں وجود میں آئیں جو اپنی بالادستی ثابت نہ کرسکیں، دونوں ممالک میں سیاست دان ایک دوسرے پر دھاندلی اور کرپشن کے الزامات لگاتے رہے۔

اگر 2007 میں بے نظیر بھٹو قتل نہ ہوتیں تو کیا یہ بھی اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف ردعمل میں پاکستان کی شیخ حسینہ بنتیں۔۔ گو بے نظیر بھٹو کی سیاسی سمجھ بوجھ حسینہ واجد کے مقابلے میں بظاہر کہیں زیادہ تھی تاہم اس امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔

یہ تلخ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ بھارت سمیت اس پورے خطے کے سیاست دان اپنے نظریاتی مخالفین سے مہذب سلوک نہیں کرتے، جس کایہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دائیں اوربائیں بازومیں سے کوئی بھی نظریہ بالادست ہوتے ہی انتقامی کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے۔

بنگلہ دیش میں آج جماعت اسلامی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں جس جبر کا شکارہیں، کل جب ان کو اقتدار ملے گا تو پھر انتقامی سیاست کا ایک سلسلہ شروع ہو گا، یہی صورت حال بھارت میں ہے کہ بی جے پی نے وہ صورت حال پیدا کردی ہے کہ کانگریس کو موقع ملنے کی دیر ہے، دائیں بازو کی بی جے پی کے خلاف شدید ردعمل جنم لے رہا ہے۔

انگریزوں سے آزادی کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزرگیا، برصغیر کے ممالک کے سیاست دانوں میں میچیورٹی پیدا نہیں ہوسکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments