پاکستان تحریک انقلاب کا الیکشن ہارنا کیوں ضروری ہے؟


محترم جناب جنرل حمید گل مرحوم نے سنہ 1996 اور 1997 میں پاکستان کی ”نظریاتی سرحدوں“ کے خود ساختہ ترجمان اور محافظ اک لاہوری اخبار میں کالمز کی اک سیریز شروع کی اور پاکستان کو ”نرم انقلاب“ کی اصطلاح دی۔ پنشن سے پیار ہو، سماج میں، بھلے بے سمت جذباتیت پر ہی کھڑی مگر عقیدت کا اظہار ہو، رتبے کی وجہ سے لوگ جھک کر ملتے ہوں، تو نرم انقلاب ہی سوجھتے ہیں کہ ایسے انقلاب بہت منتخب کر کے طاقتور لوگ اپنے مخالفین کے خلاف لے کر آتے ہیں۔

موئے ”گرم انقلاب“ کا اک بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ اصل انقلاب ہوتا ہے اور سب کا، سب کچھ ہی بہا لے جاتا ہے، ماسوائے ان کے جو اس گرم انقلاب کے داعی اور رہنمانانِ گرامی ہوں۔ انقلاب بھلے گرم ہو، یا نرم، ہوتا جھوٹ، فریب اور دھوکہ ہی ہے۔ مزید تسلی کے لیے جدید سیاسی اور مذہبی انقلابات کی اصل تاریخ پڑھ لیجیے، افاقہ ہو گا۔

بنیادی طور پر یہ چند ریٹائرڈ اسلامابادی حضرات کی چاہ ہی تھی جب 1997 میں اس وقت اسلام آباد کے اک المشہور ”انکل“ جو صدر ایوب مرحوم صاحب کے وقت کے المشہور بابوں کی سیریز کے ساتھ اپنے تعلقات کی وجہ سے جانے جاتے تھے، کے ہاں اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون ون کی سروس روڈ ویسٹ کے اک گھر میں نرم انقلاب کا مبارک جنم ہوا۔

اسلام آباد میں ہر لحاظ سے فارغ ہو چکنے والے بابوں میں آپ کو عموما جذبہ حب الوطنی کا اوقیانوس ہر وقت طوفانی حالت میں ہی ملتا ہے تو اسی اوقیانوسی طوفان میں سے اک دن اک انقلابی رہنما کا ظہور ہوا کہ جنہوں نے اپنا پہلا انتخاب چراغ کے نشان پر لڑا اور ٹی وی پر آ کر اک اشتہار میں یہ کہا کہ میرے پاس کچھ نہیں، مگر مجھے آپ، عوام، پر بھروسہ ہے۔ مجھے ووٹ دو۔ سنہ 1997 کے انتخابات میں بھی 2013 اور اب 2018 والی ہی گرمی سردی تھی اور ان انقلابی رہنما کے آس پاس اس وقت پاکستان کے تمام ”عظیم دماغ“ جمع کر دیے گئے تھے۔

بعد میں ان عظیم دماغوں میں سے جس کے اندر کچھ سمجھ بوجھ تھی، اس نے اپنا راستہ الگ ناپا کہ انہیں محترم انقلابی رہنما کی اصلیت جلد معلوم ہو گئی۔ یہ تو پھر چودہ سال بعد نرم انقلاب والوں نے ان رہنما کو دوبارہ سے لانچ کرنے کی ٹھانی، اور پھر پاکستان کے تمام سیٹھ۔ میڈیا پر بارہ گھنٹوں سے زیادہ مسلسل کوریج، بغیر کسی اشتہار کے چلی۔ سیٹھ۔ میڈیا، جو اپنے کارکنان صحافیوں کو کئی کئی مہینے تنخواہ نہیں دیتے، وہ مفت میں پاکستان کی بہتری کے لیے نرم انقلاب کی چاہ میں پورا پورا دن اس انقلابی رہنما کی محبت میں اشتہار نہیں لیں گے؟ ذرا سوچیے!

صاحبو، یہ سلسلہ اب 2018 کے الیکشنز میں پھر سے جاری ہے۔ وہی شطرنج ہے، وہی بازی ہے، وہی کھلاڑی ہیں، وہی چالیں ہیں، وہی سلسلے ہیں، وہی زیادتیاں ہیں، وہی اندھا پن ہے، وہی کوتاہ نظری ہے، وہی جھوٹی انائیں ہے کہ جیسے پاکستانی عوام جاہلوں کا ٹولہ ہے اور انہیں کچھ معلوم نہیں، وہی ایمپائر ہے اور وہی انگلی ہے۔ ہاں مگر، وقت کا پہیہ کچھ چال چل چکا ہے اور ان الیکشنز میں اسے یہ چال پاکستان کے شہریوں اور پاکستان کے حق میں چلوانا، صرف اور صرف آپ، یعنی ووٹرز کے ہاتھ میں ہے۔

تحریک انقلاب کا الیکشن ہارنا پاکستان میں سیاسی، جمہوری اور متوازن سماجی روایات اور بیانیہ کی ترویج و ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کے لیے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اک نظر ڈالتے ہیں۔

پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم، لیاقت علی خان، قتل کر دیے گئے۔ ان کے قاتل کو بھی قتل کر دیا گیا۔ یہ مقدمہ آج تک اپنا حل مانگ رہا ہے۔ میرے وطن کے دوسرے وزیراعظم، خواجہ ناظم الدین برطرف کیے گئے۔ میری ریاست کے تیسرے وزیراعظم محمد علی بوگرہ سے زبردستی استعفیٰ لیا گیا۔ میرے دیس کے چوتھے وزیراعظم، چوہدری محمد علی سے بھی استعفیٰ لیا گیا۔ میرے ملک کے پانچویں وزیراعظم، حسین شہید سہروردی کو بھی مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ ان کو اس کے بعد بھی نہ بخشا گیا۔ افسوس!

میرے ملک کے چھٹے وزیراعظم، آئی آئی چندریگر سے بھی استعفی لیا گیا، ساتویں وزیراعظم فیروز خان نون کا تختہ الٹا گیا، آٹھویں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا اور انہیں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ نویں وزیراعظم محمد خان جونیجو کو برطرف کیا گیا۔ دسویں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو برطرف کیا گیا، گیارہویں وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کیا گیا، بارہویں وزیراعظم بے نظیربھٹو کو بھی برطرف کیا گیا، تیرہویں وزیراعظم کو بھی زبردستی عہدے سے ہٹایا گیا، چودہویں وزیراعظم جمالی کو بھی وزیراعظم کے گھر سے نکالا گیا، پندرہویں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی برطرف کیا گیا اور پھر سولہویں وزیراعظم، میاں نواز شریف کو بھی ان کے عہدے سے نکالا گیا۔ ان میں سے ایک بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکا۔

ہر مرتبہ اس دنگل کے کھلاڑی وہی تھے، جو خواجہ ناظم الدین کی مرتبہ تھے۔ ہر مرتبہ اس دھینگا مشتی میں کھلاڑیوں کا ساتھ چند سیاستدانوں نے دیا۔ ہر مرتبہ ہی میرا دیس، پاکستان اور میرے لوگ، پاکستانی، نقصان میں رہے۔ پاکستان، جو اک عظیم ملک بن سکتا تھا، اک عجیب ملک بن کر رہ گیا۔ غربت بھی ساتھ تحفے میں خود بخود ہی چلی آئی۔

یہ سچ ہے کہ میاں نواز شریف جنرل جیلانی کی گود میں رہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ بھٹو جنرل ایوب کی انگلی پکڑے چلتے رہے۔ ان دونوں نے مگر اپنا کفارہ ادا کیا۔ بھٹو کا کفارہ وزنی اور تاقیامت ہے۔ افسوس یہ بھی ہوتا ہے کہ جب پاکستانی سیاستدانوں کی عمر سیاسی اثاثے بننے کی آئی، انہیں اکھاڑ باہر پھینکا گیا۔ کچھ قتل کر دیے گئے، کچھ جیل کے مہمان بنا دیے گئے۔

اس مرتبہ کی عامیانہ نوکری پاکستان تحریک انقلاب کر رہی ہے اور یہ نوکری کھلے عام، کسی بھی اوسط درجے کی ذہانت رکھنے والے شخص کو نظر آ جاتی ہے۔ اگر پچھلے ستر برس میں اس نوکری کا میرے دیس کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، تو یارو، اگلے ستر برس بھی اس نوکری کا میرے دیس اور اس کے باسیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

یہ الیکشن بنیادی طور پر پاکستانی ریاست کے جواز، اس میں موجود شہریوں کے جمہوری و سیاسی آدرشوں اور ان جفادریوں کے مابین وہ جدوجہد ہے کہ جس کا نتیجہ اب پاکستان، پاکستانی ریاست اور پاکستانی شہریوں کے حق میں لازما نکلنا چاہیے۔ میرا ملک اور میرے لوگ بھونڈے تجربات کی بھینٹ بہت چڑھ چکے ہیں، یہ سلسلہ اب تھمنا چاہیے۔

کھلاڑیوں کو ہارنا چاہیے۔ کھلاڑیوں کے نوکروں کو ہارنا چاہیے۔ ان کی اس ہار میں ہی میرے دیس کی جیت ہے۔ اور اگر میرا دیس، میرے لوگ یہ کھیل نہ جیت پائے، تو صاحبو، مجھ جیسے تو پھر تماشہ ہی دیکھیں گے، آپ بھی میرے ساتھ ہو لیجیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).