مستونگی آہ و بکا، مستونگی کیک و مستونگی چائے و صلاح


کوئی بھی جب کراچی سے براستہ کوئٹہ آتا ہے تو راستے سے مستونگ کا کیک ضرور لاتا ہے۔ مستونگ کے داش میں بنے کیک میں وہ کونسی خاص بات تھی جو کہ کوئٹہ کی کوئی اور بیکری بنانے سے قاصر تھی۔ شیرے میں لپٹا وہ کیک جب ختم ہونے لگتا تو آخر میں پنیر کا نمکین مزہ نہ صرف منہ کا ذائقہ بدلتا بلکہ ایک اور کیفیت پیدا کرتا کہ پھر سے وہ کیک چکھا جائے اور یہی خواہش ابھرتی کہ کاش مستونگ قریب ہوتا تو اپنے اسکول کے پیسوں سے یہ کیک روزانہ کھایا جائے۔

آج بھی جب چائے میں میٹھا زیادہ ڈل جائے تو اہل کوئٹہ کہتے ہے کہ کیا مستونگی چائے بنائی ہے۔ یہ عاشقوں کے لئے بہتر ہے۔ ہمارے لئے تھوڑی کم چینی والی چائے بنا کر لاؤ۔

مستونگ اپنے لحاظ سے عجیب سا شہر رہا ہے۔ دوست محترم عادل جہانگیر کا ایک زمانہ تھا کہ مستونگ کے ہر گلی و کوچے میں بی ایس او کا جھنڈا لگا ہوتا تھا۔ علم و ادب کا داعی انقلابی شہر مستونگ جو امن کا گہوارہ تھا، جہاں کتابوں کے عاشق جوان رہتے تھے، جہاں سیاست کی بنیادیں تھی، جہاں ساراوان ہاؤس میں بی بی و بھٹو کے قصیدے تھے، نجانے کس نے دیوار سے لگا دیا۔ آج وہاں صرف کافر کافر کے نعرے درج ہے اور جب ان راستوں سے گزر ہوتا ہے تو لگتا ہے ہے کہ کئی معصوم روحیں ان سڑکوں پر اب بھی کسی گمنام مسیحا کا رستہ دیکھ رہی ہے جو ان کو ابدی نجات دلا سکیں۔

میں آخری دفعہ کوئٹہ سے باہر روڑ کے ذریعے اپنے کالج کی نمائندگی کرنے کراچی گئی تھی اور شاید پھر نہ کھی تقدیر نے اس طرف کھینچا اور نہ ہی حالات نے کیونکہ سننے میں یہ آتا ہے کہ مستونگ میں بھوتوں کا بسیرا ہے جن کا پیٹ بھرنے کے لئے نوجوانوں کی لاشوں کی بلی چڑھانی ہوتی ہے۔

پہلے پہل وہ بھوت چھوٹا سا بچہ تھا تو ایک دو جوان لاشوں پر اکتفا کرتا تھا۔ اب تو ڈھائی سو سے کم پر بھی اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ نہ کوئی اس جانب جاتا ہے نہ ہی وہاں سے کوئی سچا پیغام آتا ہے کہ لوگو کو بتا سکیں کہ بھوت کی ساخت کیسی ہے اور وہ اب تک کتنے بچے جن چکی ہے۔ کہتے ہیں جو سچ بولتا ہے تو جب پلٹ کر دیکھتا ہے تو وہ پتھر کا ہو جاتا ہے، اس لئے سب اپنی جان کا امان چاہتے ہیں اور سچ نہیں بول پاتے، بتایا ہے نا کہ مستونگ پر بھوتوں کا بسیرا ہے۔

سن 2010 میں جب ہم کراچی سے مستونگ پہنچے تو شام ہو چکی تھی۔ دور راستے میں نیٹو کے کچھ کنٹینرز رکھے تھے جس کے سارے ٹائرز جلے ہوئے تھے اور مدارس کے کچھ بچے ان کنٹینرز کو کھولے اس کا سامان لے جا رہے تھے۔ میں نے اپنے استاد محترم عدنان کاسی (جو کہ خود وکلا حملے میں دہشت گردی کا شکار ہوکر جان سے گئے) سے کہا کہ یہ بچوں کی تربیت غلط ہو رہی۔ بھلے ہی کنٹینر پر حملہ ہوا ہے مگر اس کے اندر سامان بھی تو حرام ہے۔ پھر چونکہ اگر سپلائی کفار کا ہے تو سامان بھی تو کفار ہی کا ہے۔ تو استاد محترم نے کہا ”تم تو پکی لیوانے (پشتو میں پاگل کو کہتے ہیں) ہو“۔ اور ہم کوئٹہ کی جانب رواں دواں ہوئے۔

مستونگ کے بارے میں اور کچھ نہیں جانتی مگر ہزار گنجی سے مستونگ کے راستے پر رکنے والے اس کنٹینر کی خبر مجھے ضرور یاد ہے جو افغانستان سے غیر قانونی طور پر سمگل شدہ افراد کو ایران لیجا رہے تھے کہ سانس گھٹنے سے 49 افراد کی موت واقع ہوئی مگر خدا جانے کہ اس واقعے پر کیا پیش رفت ہوئی۔ یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ مستونگ سے اگلی شناسائی اسی راستے ہزارہ قبیلہ کے بس قافلوں پر دھماکوں سے ہوئی۔ حالانکہ یہ شناسائی بڑی درد ناک ہے مگر یہی حقیقت ہے کہ ایک چھوٹا سا علاقہ جب بھی خبر میں آتا ہے تو بری خبر ہی لاتا ہے۔

سنا ہے کہ دیو اور بھوت تتلیاں کھاتے ہیں۔ جگنوؤں کے پر جلاتے ہیں اور شہد میں زہر ملاتے ہیں۔ سنا ہے مستونگ پر بھی دیو کا بسیرا ہے۔ ابا کہتے تھے بنی آدم پر ابراہیم علیہ سلام کا سب سے بڑا احسان انسانی قربانی کی رسم کا خاتمہ تھا اور موسی علیہ سلام نے سب سے طاقتور اس کائنات کے مالک کو اپنے سامنے آنے کا کہا تھا اور وہیں سے بنی نوع انسان نے زندگی اور نجات پائی تھی۔

ہم نہیں جاتنے مستونگ ان دس سالوں میں کیسا رہا پر یہ خبر ضرور ہے کہ 200 کے لگ بھگ تتلیاں بھسم ہوئیں۔ جگنوؤں کے دامن پر خون کے داغ تھے اور شہد اب زہر بن چکا ہے۔ پہلے ہزارہ بچے درینگڑھ سے ڈرتے تھے اب بلوچ بچے بھی ڈرتے ہیں۔

عقیدہ یہی ہے کہ رسالت تمام شد مگر کہاں سے لائیں وہ ابراہیم جو ہمارے بچوں کی بجائے دنبوں کی بلی چڑھائے اور وہ موسی جو اس سرزمین کے طاقتور بھوتوں کا نام کھل کر لے اور ان کا سامنا کرے۔

ہائے افسوس! اب تو جب کوئی جھوٹی صلاح بھی مارے تو ہم اس کو مستونگی صلاح قطعاً نہیں کہتے کہ کہیں و سچی نہ نکلے۔
مستونگ جو ایک پل صراط ہے کہ نجانے کیوں چرواہوں، بے گناہوں اور معصوموں کے بچے آگ کی لپیٹ میں آتے ہیں اور ظالم آسانی سے گزر جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).