عمران خان کی ’شفاف فوج‘ اور جسٹس شوکت صدیقی کے ’ناروا‘ شکوے


2007 کی عدلیہ بحالی تحریک کے بعد یوں لگنے لگا تھا کہ اب یہ کھیل ختم ہو سکے گا۔ اب سیاست دانوں اور سول منتظمین پر بدعنوانی کے نام پر بالا دستی حاصل کرنے اور عوامی حکمرانی کا راستہ روکنے کی کوششیں ہمیشہ کے لئے ناکام ہو جائیں گی۔ پھر این آر او ہو گیا اور ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہونے لگا۔ اس راستے سے چونکہ پسندیدہ اور ناپسندیدہ ہر قسم کے عناصر مسند اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں ، اس لئے ہر گروہ کے ساتھ شریک لوگوں میں کچھ پسندیدہ لوگوں کو شامل کرلیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ اب وافر تعداد میں عمران خان کے قافلہ کا بھی حصہ ہیں۔ لیکن بدعنوانی کو سیاست کا سرنامہ قرار دینے کا جو عظیم کام عمران خان نے انجام دیا ہے، اس سے پہلے وہ کسی سیاسی لیڈر کے حصے میں نہیں آیا۔ یہ کام تو فوج کے متعدد جرنیل بھی کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس لحاظ سے عمران خان تو دراصل ان قوتوں کے ’محسن ‘ ہیں جو ملک کو سیاست دانو ں کے سایہ بد سے بچا کر نظریہ پاکستان کے سچے اصولوں کے کے مطابق قومی مفاد کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل رہتے ہیں۔

ملک میں حالیہ جمہوری دور کے دوران ان عناصر کو برے سیاست دانوں کا راستہ روکنے کے لئے کبھی میمو گیٹ کا سہارا لینا پڑا اور کبھی ڈان لیکس ان کا ہتھیار بنا۔ لیکن عمران خان کی صورت میں ایک ایسا شخص سامنے آیا ہے جس نے خود مختار عدلیہ کے قائم کردہ ’شفافیت اور نیک نامی‘ کے معیار کو ایسا اسم اکبر بنا دیا ہے جس کے ذریعے نام نہاد جمہوریت کے گمراہ راستہ کو مسدود کرنے کا کام کامیابی کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اس حد تک تو فوج اور عمران خان کا مقصد ایک ہے اور وہ دونوں اس کامیابی پر مسرور بھی ہیں۔ لیکن عمران خان کی مشکل یہ ہے کہ وہ جس راستے کو بدعنوانی کی کنجی قرار دیتے ہیں، انہیں اسی راستے پر چل کر وزارت عظمی کے لئے دعویٰ دائر کرنا پڑے گا۔ 25 جولائی کے انتخاب میں اگر عمران خان کو یہ موقع مل گیا تو اس کے بعد طے ہو سکے گا کہ ان کی نظر میں فوج بدستور شفاف ادارہ رہتا ہے یا اس کی کچھ کمزوریاں بھی عیاں ہونے لگیں گی۔

عمران خان نے جس ادارے کو ملک کا سب سے شفاف یعنی قابل اعتبار ادارہ قرار دیا ہے ،اس کے بارے میں ملک کے ہر تجزیہ نگار اور ماضی پر نگاہ رکھنے والے ماہر کے پاس کچھ معلومات بھی ہیں اور ان کی آرا عمران خان کی سنہری رائے سے متصادم بھی ہوں گی۔ لیکن اس وقت مفاد کی بنیاد پر ہونے والی ’عمران عسکری وصال‘ کا ہنی مون جاری ہے۔ اس لئے اس وقت دونوں کو ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھائی دینا فطری امر ہے۔ لیکن فوج کے بارے میں عمران خان کی رائے چونکہ انتخاب میں کامیابی کے لئے اختیار کیا ہوا سلوگن بھی ہے اس لئے انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج شوکت صدیقی کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو دئیے جانے والے مشورہ کو بھی پڑھ لینا چاہئے۔

لاپتہ افراد کے حوالے سے ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران اعلیٰ عدلیہ کے جج نے آرمی چیف کی توجہ اس طرف مبذول کروائی ہے کہ ان کے ماتحت حساس ادارے عدلیہ، ایگزیکٹیو اور دیگر اداروں میں مداخلت کرتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آرمی چیف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک کی صورت حال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے عدلیہ، ایگزیکٹیو اور دیگر اداروں میں حساس اداروں کی مداخلت کو روکیں۔ عدالت نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے لوگوں کو روکیں جو حساس اور اہم معاملات میں اپنی مرضی کے بینچ بنوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حساس اداروں کی طرف سے اس معاملے میں عدلیہ میں ججز سے رابطے کیے جاتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ ججز کی فون کال بھی ٹیپ کی جاتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ججز کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

 ہائی کورٹ کے ایک جج کا دوران سماعت عمران خان کے بقول ملک کے شفاف ترین ادارے کے بارے میں اظہار خیال اس تصویر کو مکمل کرتا ہے جو سیاست، انتخاب، بدعنوانی اور قومی مفاد کے اجزا کو ملا کر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جس آمیزے کی مدد سے عمران خان کو ملک کا وزیر اعظم بنانے کا راستہ ہموار ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود یہ خوف تو طاری ہے کہ 25 جولائی کو اگر کوئی انہونی ہوگئی تو اسے کس دشمن کے کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ اس پس منظر میں قومی انتخابات میں عمران خان کی کامیابی جمہوریت کی فتح نہیں بلکہ پاکستان میں جمہوری عمل کے راستے کا سب سے بھاری پتھر ثابت ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali