چل رہی ہیں، چل رہی ہیں، چل رہی ہیں قینچیاں


”ادارے“ مقدس ہیں، ان کے اختیارات لامحدود ہیں۔ ان کا ہر عمل واجب احترام ہے۔ تنقید کا ایک بھی لفظ زبان پر مت لاؤ ورنہ مٹا دیے جاؤ گے، پتھر کے مجسموں میں تبدیل ہو جاؤ گے۔ اسی میں عافیت ہے۔ شان میں گستاخی کرو گے تو بھسم کردیا جائے گا، کسی نقص کی نشان دہی کروگے تو توہین کے مرتکب ہوگے، توہین کا ارتکاب کرو گے تو عقوبت کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔ اپنے جامے سے باہر نہ نکلو، عبرت پکڑو، ناجائز بولنے والے کُشتگان کا انجام دیکھو۔ سیدھے سیدھے دہشت گرد قرار پاؤ گے۔

میڈیا کے کارکنوں میں ان کے افسران بالا یہی پیغام عام کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا کیا جائے؟ بہت آسان ہے۔ گفتگو کرنا چاہتے ہو، کرو۔ کون روکتا ہے، تجزیے میں استدلال اور سوال کا بگھار مت ڈالو۔ عدلیہ مقدس ادارہ ہے، اس پر انگلیاں نہ اٹھاؤ۔ کارروائی شفاف ہونی چاہیے۔اس سوال کا قضیہ کیوں کھڑا کرتے ہو۔ کیا یہ کہنا کافی نہیں کہ بُھگتنے والے جو بُھگت رہے ہیں انہیں بُھگتنا ہی تھا۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ بس، یہی بھرپور تجزیہ ہے۔ مصیبت خریدنے کے چکر میں کیوں پڑتے ہو۔

مثال کے طور پر، نواز شریف کے لیے یہی کہو اور لکھو کہ جو بویا، وہی کاٹ رہا ہے، جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ کیا چیز شفاف ہے کیا غیر شفاف، اس کنویں کو کیوں ناپننا چاہتے ہو۔ اچھا صاحب جی، درست فرمایا۔ یہ بتانے کی زحمت گوارا کریںگے کہ یہ ”ادارے“ کا لفظ کیا مفہوم ادا کر رہا ہے، آپ نے اپنی تحریروں اور بول چال میں یہ لفظ مخصوص معنوں میں کیوں رائج کیا ہے۔ کیا زبان کی تنگ دستی ہے یا نظریہ ضرورت کی ضرورت ہے۔ ”ادارے“INSTITUTION تو اسم نکرہ COMMON NOUN  ہے، اس میں مخصوص معنے کہاں سما سکتے ہیں؟

گدھے! روزنامہ ”بطوطہ“ میں کام کرتا ہے، معمولی بات نہیں، یہ ایک باوقار، مُعتبر، ٹکسالی ادارہ ہے۔ یہاں کام کرنے والے کو ان معمولی الفاظ کا مفہوم معلوم ہونا چاہیے۔ چل، سُن، یہ مخصوص ادارے ہی ہیں، جیسے عدلیہ، فوج، انٹیلی جینس ایجینسیاں وغیرہ۔ تو سیدھے سیدھے عدلیہ اور فوج کہنے میں کیا قباحت ہے، سر جی؟ دوسرے معاملات میں یہ دونوں الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ بات وہی ہے۔ یہ عدلیہ اور فوج مقدس ہیں، ان کے لیے ادارے کا لفظ استعمال کرنے سے رعب داب اور کرّوفر کے عناصر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن لُغت میں تو ادارے کا مطلب …. بھاڑ میں ڈالو لُغت کو۔ لُغت مقدس نہیں ہے۔ روزنامہ ”بطوطہ“ میں کام کرتے ہو۔ معلوم ہونا چاہیے، لُغت کے الفاظ و معنی میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔

اب ہم نے عدلیہ اور فوج کے لیے ادارے کا لفظ متعین کردیا ہے تو یہ لفظ مقدس ہوگیا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور ہم نے اس میں جس معنی کا انجکشن لگا دیا ہے اب وہی چلے گا۔ گویا یہ حرف آخر ہے۔ ’ادارے‘ کے ساتھ کوئی لاحقہ یا سابقہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے؟ جیسے آپ کہتے ہیں، مقدس لوگوں کا فرمان، تعلیمی اداروں کی کارکردگی؟ نالائق، میر تقی میر نے کہا ہے:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہِ شےشہ گری کا

آہستہ بولو، دفتر کے سب لوگ سُن رہے ہیں۔ ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی۔ اور دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ ذوالفقار بخاری صاحب نوں یاد کرو، اُناں نے کی دسیا سی؟ دھیان نال سنو، کَن کھول کے سنو، اُناں نے اشارہ کیتا سی

اڑوں کہاں کہ فضا میں بھی جال پھیلے ہیں

میں پر سُکیڑ کے بیٹھا ہوں آشیانے میں

مطلب یہ کہ جاسوسی کا جال ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ تم بخاری صاحب سے زیادہ علم رکھتے ہو؟ وہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے سربراہ رہے۔ دونوں محکمے براہ راست سرکار کے کنٹرول میں تھے۔ بخاری صاحب سیانے آدمی تھے۔ حُدود میں رہنے کا فن جانتے تھے۔ پر سُکیڑنے کے فن میں پختگی حاصل کرنے کے لیے ریاضت کرو، مشق کرو، سیاسی عافیت کا سامان کرو، کانٹوں سے بچو، پھولوں سے دوستی بڑھاﺅ، گل رُخوں سے آشنائی کے اسباب ڈھونڈو۔ خواہ مخواہ دلدل میں کیوں اترنا چاہتے ہو؟ دلدل میں کودو گے تو میں کہوں گا، جیسے نواز شریف نے جو کیا، اس کا پھل پایا اسی طرح تم نے جو بویا، اس کا پھل پایا، اپنے افسرن بالا کے ارشاداتِ عالیہ سے انحراف کیا، یہ اس کا پھل ہے۔

لیکن سرجی، لکھنے والے تو مُسلسل 71 سال سے یہی بُھگت رہے ہیں۔ زباں بندیوں اور زنجیروں کا موسم ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ہمیشہ سحر انصاری کا شعر اپنی کیفیت کے بیان میں استعمال کرتے ہیں۔

جانے کیوں رنگِ بغاوت نہیں چُھپنے پاتا! !

ہم تو خاموش بھی ہیں سر بھی جھکائے ہوئے ہیں

اور اپنے سیف الملوک والے حضرت میاں محمد بخش نے بھی فرمایا تھا:

خدمت گار، غلام بچارے، مُونھ سُکّے، تر دیدے

رونق رنگ ہویا مُتغیّر، ہوئے درد رسیدے

ہم مارشل لاﺅں کی سفّاک زباں بندیوں سے گزرے، جمہوریتوں کے قتلِ عام کی تصویریں دیکھیں، عدلیہ کے نظریہ ضرورت کی تاب دار دھار دیکھی۔ ججوں کی آپس میں ہونے والی دھواں دھار جنگوں کا تماشا دیکھا۔ پی سی او کی جُگالی کا شرم ناک منظر دیکھا، حلف کو اُلٹتے پلٹتے دیکھا، لفظ ”مقدس“ کی بار بار دُرگت بنتے دیکھی۔ ہم تو بُھولنا چاہتے ہیں لیکن کوئی نہ کوئی نسیم حسن شاہ طویل نیند سے بیدار ہوکر اعلان کرتا ہے کہ ہم نے دباؤ میں آکر بھٹو کی پھانسی کے فیصلے پر مُہر لگائی۔ واہ واہ، قبر میں اُترنے سے پہلے مرحوم و مغفور کی پیشانی پر عرقِ انفعال کے قطرے نمودار ہوئے۔ لیکن بھٹو تو جان سے گزر گیا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2