جبران ناصر! تو چھا گیا ہے لڑکے


جبران ناصر جیتے گا یا نہیں، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ یہ بات تو پکی ہے کہ جوان ہارے گا نہیں۔ پاکستان ایسے دور میں داخل ہوچکا ہے جہاں جیتنے والے اور نہ ہارنے والے دوبدو ہوگئے ہیں۔ جیتنے والے وہ ہیں جو عوام کا فیصلہ نہیں مانتے۔ نہ ہارنے والے وہ ہیں جوعوام کے فیصلے کو مسترد کرنے کا فیصلہ نہیں مانتے۔ جنہیں عوام کا فیصلہ قبول نہیں، وہ جبر کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ جو جبر کے فیصلے نہیں مانتے وہ خلق خدا کی آواز کو پتھر کی لکیر جانتے ہیں۔ دونوں میں کیا مقابلہ اور کیا موازنہ۔

جبران ناصر کہتا ہے میں تبلیغ پہ نہیں نکلاہوا۔ صاف جھوٹ! ظالم تبلیغ کررہاہے اور مست تبلیغ کررہا ہے۔ جبران کی آواز فرسودہ کاروبارِ سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ یہ آواز شہریوں کے بیچ جنس رنگ نسل اور عقیدے کی بنیاد پر تفریق سے انکار کی آواز ہے۔ اس آواز کے ساتھ قومی اسمبلی میں جگہ بنانا ممکن نہیں ہے۔ اس آواز کی سزا مشال خان کے والد اقبال لالا سے کوئی پوچھے۔ ایک برس میں صدیوں کی مسافت اس بزرگ نے طے کرلی ہے۔ کہنا اچھا نہیں لگتا، مگر مملکت کے منہ کو خون لگ چکا ہے۔ سنگ وخشت یہاں مقید ہیں اور سگ آزاد پھررہے ہیں۔ صرف پنجاب میں ہی سترہ ہزار مسلم لیگی سیاسی کارکنوں پر مقدمات قائم کیے چکے ہیں اور دوسری جماعتوں کے اس کے علاوہ ہیں۔ یہی سلسلہ ہفتہ بھر سے کراچی میں جاری ہے۔ دوسری طرف دوسو مذہبی انتہا پسندوں کے نام فورتھ شیڈول سے نکال کر معززشہریوں پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔ اب جس سمت میں ترقی پسند نمائندے کھڑے ہیں وہاں بارود کی بو پھیلی ہے۔ جس طرف نفرت کے سوداگر کھڑے ہیں مملکت نے وہاں پلکیں بچھائی ہوئی ہیں۔

جبران نے اس نگر میں آواز لگائی ہے جہاں منجھے ہوئے انتخابی امیدوار کے کاغذات مکمل ہوں تو دعائے قنوت سن لی جاتی ہے۔ جہاں تعلیمی نصاب مذاہب کا تعارف نہیں کرواتا بلکہ مذاہب کے حوالے سے اپنی رائے دیتا ہے۔ جہاں منافرت، فرقہ واریت اور جبر کو آئینی وقانونی حیثیت حاصل ہے۔ آپ انڈیا کے جھنڈے پر کھڑے ہوکر تصویر بنوالیں تو آپ اغوا برائے تاوان، چوری چکاری اور قتل وغارت گری کی سند رکھتے ہیں۔ آپ نے مملکت کا بالادست عقیدہ اختیار کرلیا ہے تو جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا۔ اشرافیہ نے مذہب کی خیمہ بستیوں میں حب الوطنی کے کمبل اوڑھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہمیں دوباتیں تعلیم کررکھی ہیں۔ علم و اخلاق پر عقیدے کا اجارہ ہوتا ہے اور یہ کہ مذہبی عقیدے کو سیاسی موقف پر فضیلت حاصل ہوتی ہے۔

ہم نے بھی ستر برس قبل یہ سبق یاد کرلیا، وہ دن ہے آج کا دن ہے ہمیں چھٹی نہ ملی۔ ہم نے ہمیشہ بلندکرداری پر خوش عقیدگی کو ترجیح دی ہے۔ جنہوں نے ہماری پگ خلیج بنگال میں پھینکی وہ خوش عقیدہ ہونے کی وجہ سے سبزہلالی پرچم میں کفنائے گئے۔ جنہوں نے سرحدوں پر اپنے خون سے لکیر کھینچی وہ بدعقیدہ ہونے کی وجہ سے بھولی بسری داستان ہوگئے۔ اس بیچ سماج کو قصوروار کیوں ٹھہرا جائے؟ قصوروار تو وہ طبقہ اشراف ہے جس نے بہت محنت سے یہ پڑھایا ہے کہ کافر ہزار نیکیاں کرلے، بدطینت مومن پرپھر بھی فضیلت نہیں پاسکتا۔ عبدالستار ایدھی عظمت کا مینار ہوں گے، مگر حورانِ بہشت کو تو مولانا عبدالعزیز سے مطلب ہے۔ دیا ہوگا ڈاکٹر عبدالسلام نے بھی کوئی کارنامہ سر انجام، مگر قومی ہیرو بننے کی اہلیت تو سراج رئیسانی میں ہے۔

جبران کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ یہ نشست وہ جیت جائے گا۔ اس بات کا مگر اسے یقین ہے کہ اس کی آواز امر ہوجائے گی۔ وہ خود کو سوالات کی زدپر رکھ کر ووٹروں کو کچھ موٹی موٹی باتیں سمجھا رہا ہے۔ جیسے کہ جوتوں سمیت کسی شہری کی آنکھ میں اترنا بداخلاقی ہوتی ہے۔ اوریہ کہ امیدوار کے سیاسی نقطہ نظرکی بجائے اس کے مذہبی عقیدے میں دلچسپی لینا نری فحاشی ہوتی ہے۔ سوچنا چاہیے کہ جو قوم ووٹرلسٹ پر مذہب کے اندراج پر اصرار کرتی ہے، وہ قوم اپنی سی وی میں عقیدے کا حوالہ کیوں نہیں دیتی؟

کسی امیدوار سے اس کے عقیدے کا پوچھنا ایساہی ہے جیسے کوئی کمپنی عقیدے کے اندراج کے بغیر آپ کی سی وی قبول کرنے سے انکار کردے۔ آپ کے کوائف مکمل ہوں مگر کمپنی آپ کو اس لیے مسترد کردے کہ آپ کا عقیدہ ان کی رائے میں درست نہیں ہے، تو کیسا محسوس ہوگا؟ برا لگے اور لگنا بھی چاہیے۔ کیونکہ عقیدہ اہلیت یا صلاحیت نہیں ہوتا۔ عقیدہ کتنا ہی درست ہو آپ ہمالیہ سر نہیں کرسکتے۔ دل میں ایمان نہیں، اس کے لیےہڈی میں گودادرکار ہوتا ہے۔ دنیا نے اگر چاند پر بستر لگالیا ہے تو اس میں عقیدے کو کوئی دخل نہیں ہے۔ ہم زمین پر بھی اگر ڈھنگ سے چل نہیں پارہے تو عقیدے اس کے ذمہ دارنہیں ہیں۔ جسٹس منیر، جسٹس مولوی مشتاق، جسٹس ڈوگر اور جسٹس افتخار اگر انصاف نہ کرسکے تو اسلام کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ رانا بھگوان داس نے انصاف کا بول بولا کیا تھا تو ہندو مت کا اس میں کوئی کمال نہیں ہے۔

جبران ناصر کی کوئی دینی نسبت نہیں ہے۔ مذہبی نعرہ لے کر وہ معرکے میں نہیں اترا۔ بلکہ اس بات پر وہ ایمان رکھتا ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال ملاوٹ کی بدترین صورت ہے۔ پھر بھی حرم کے پاسبان محدب عدسے لیے چڑھ چڑھ کے آتے ہیں اور جبران کے دانت چیک کرتے ہیں۔ یہ وقت دراصل امیدوار کے حوصلے کے امتحان کا وقت ہے۔ جو اس نے کہا اس پر قائم ہے، یا پھر اس عقیدے کو فورا ظاہرکر کے ووٹ پکے کروانا چاہتا ہے جو مملکت کے بالادست عقیدے کے لیے قابل قبول ہو۔

جبران سے کل کسی نے پوچھا، احمدیوں کے حوالے سے آپ کا نقطہ نظر کیا ہے۔ ارے نہیں، یہ پوچھا ہوتا تو کیا ہی بات تھی۔ کہنے والے نے کہا کہ آپ احمدیوں کو کافر قرار دیجیے پھر اگلی بات ہوگی۔ بھرے بازار میں قدسیوں کے بیچ ہاہا کار مچی رہی، مگر جبران نے اپنی رائے نہیں دی۔ جبران اگر رائے دے دیتا تو وہیں ہار جاتا۔ اپنی رائے نہ دے کر اس نے وہ جیت اپنے نام کرلی ہے جس کا اعلان برسوں بعد تب ہوگا جب ووٹروں کی اکثریت کو احساس ہوجائے گا کہ کسی کے عقیدے پر رائے دینا کسی شہری کا منصب نہیں ہے۔ اور ریاست کا تو بالکل بھی نہیں!

انتخابی امیدوار الیکشن لڑرہے ہیں، جبران ناصر جنگ لڑرہا ہے۔ یہ جنگ محض اس بات کی جنگ نہیں کہ جو اختیارات پارلیمان سے چھینے جاچکے ہیں، وہ واپس کر دیے جائیں۔ یہ اس بات کی بھی جنگ ہے کہ جو اختیارات خدا سے لیے جاچکے ہیں، وہ اسے لوٹا دیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).