رحمان ملک اڈیالہ جیل کھولی نمبر 1 کی کہانی سناتے ہیں


“پاکستانی سیاست میں اڈیالہ جیل کووقت کے ساتھ ایک تاریخی مقام حاصل ہوچکاہےکیونکہ بمشکل ہی کوئی بڑارہنما ایسا ہو گا جس نے اس جیل کی اندرونی سلطنت کو نہیں دیکھا ہوگا جہاں جیل سپرنٹنڈنٹ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس پر مشتمل اپنی کابینہ کی مدد سےآزادی کے ساتھ حکمرانی کرتا ہے۔ یہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ متعلقہ بیرکس میں امن رکھنےکےذمہ دارہیں جہاں مجرمان اور ایسے قیدی رہتے ہیں جن کا ٹرائل چل رہا ہوتا ہے۔

جیل کی ریاست ایک سلطنت کی طرح ہوتی ہے جہاں جیل انتظامیہ قیدیوں سےانسان کی بجائےاپنےغلام جیسے رویے کا مطالبہ کرتی اور اسےیقینی بناتی ہے۔ اس کیلئےجب کوئی اعلیٰ افسرقریب سے گزرتا ہےتو ہرکسی کواپنی نگاہیں نیچی رکھنےکی ضرورت ہوتی ہے۔ ہرنئےآنےوالےکواگلی صبح ذلت آمیز اور رسواکن حالات سےگزرناپڑتاہےجب وہ خودکوڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے سامنے ’ملاحظہ‘ (معائنہ) کیلئےپیش کرتاہے۔ انھیں معائینےکےدوران نیچی نگاہیں کرواکرایک قطار میں زمین پر بٹھایا جاتا ہےاور کسی ز بھی خلاف ورزی پرانھیں سب کے سامنےسزادی جاتی ہے۔ وہاں صرف ایک چیزجیل انتظامیہ کی حمایت میں جاتی ہے اوروہ ہے’’برابری‘‘۔ وہاں انڈرٹرائل قیدی یاایک مجرم میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا اوردونوں کےساتھ ایک ہی سلوک کیاجاتاہے۔ ہرکوئی جیل کےکسی بھی کونےمیں خوف اوردہشت محسوسکرسکتاہے۔

تاہم سیاستدان قیدی اور بیوروکریٹس جو جیل انتطامیہ پراپنےسیاسی اثررورسوخ یامالی طاقت سے اثرانداز ہوسکتے ہیں وہ جیل میں اپنا وقت عام قیدیوں کے مقابلے میں آرام سے گزارتے ہیں۔ وہ جیل کےہسپتال میں جیل کےڈاکٹرکےساتھ رہتےہیں اور جیل قوانین کےتحت ڈاکٹرکےپاس بھی کافی اختیارات ہوتےہیں۔ جیل کےمیڈیکل سنٹرمیں رہنےکےخواہش مندقیدیوں سےسازباز کیلئےان کااپناایک نیٹ ورک ہوتاہے۔ جب تک جیل سٹاف کی ہتھیلیاں گرم نہ کی جائیں تب تک ان کارویہ بمشکل ہی دوستانہ ہوتا ہے۔

جب کوئی جیل کےگیٹ سےاندرداخل ہوتا ہےتو اس کا پہلا سامنا جیل اہلکار سے ہوتاہے جو یہ دیکھنے کیلئے نئے آنے والے کے پاس اس کی تلاشی لیتاہے کہ وہ کوئی ممنوعہ چیز، کیش یاموبائل جیل میں نہ لے جائے۔ اگروہ اپنےساتھ کیش لیجاناچاہتاہے تواسے اہلکارکورشوت دینی پڑتی ہےاوروہ آپ کو رقم اندر لےجانےدیتا ہے۔

یہ دسمبر1996 میں محترمہ بےنظیربھٹوکی حکومت گرنےکےبعدکی بات ہےجب مجھے ایف آئی اےکےدفترسےحراست میں لیاگیاتھااس وقت ایف آئی اےکےبہت سے وفادارافسران نےمجھے دفترنہ آنے کاکہاکیونکہ مجھے گرفتارکرنےکافیصلہ ہوچکاتھاکیونکہ میں نے محترمہ بےنظیربھٹو، آصف زرداری اور اس وقت کے وزیرداخلہ جنرل نصیراللہ بابرکے خلاف سرکاری گواہ بننے سے انکار کیاتھا۔

مجھے سینئرساتھیوں اس وقت کے ڈائریکٹر سعیدالراعی اور اے ڈی جی چوہدری افتخارکےساتھ بیٹھےہوئےخاموشی سےنکل جانےکاکہاگیا لیکن میں نے سامناکرنےکافیصلہ کیاتھا۔ تاہم جب پوچھا گیا تو مجھےبتایاگیاکہ مجھےگرفتارکرنےکیلئے وجوہات ذہن میں یہ ہوں گی:

1-آئی جےآئی کی تخلیق کی تحقیقات اور اس وقت کے وزیراعظم/وزیرداخلہ کی ہدایات پر میرا جرمنی کادورہ۔

2- مختلف بینکوں میں موجود جعلی اور بے نامی اکائونٹس اور ان میں لاکھوں ڈالرز کی ٹرانسفراور جمع کرانے کی تحقیقات اور حدیبیہ انجینئرنگ اور حدیبیہ پیپرملز کیلئے قرضوں کی سہولت کی تخلیق اور ایون فیلڈ،ییلوکیب سکیم،موٹروےپراجیکٹ اور مہران بینک سکینڈل کی تحقیقات۔

ڈائریکٹر ہید کواٹرز نے مجھے بتایا کہ آپ کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہےلیکن آپ کو گرفتارکرنے کی ہدایات ہیں۔ ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیاں میرے خلاف کوئی مقدمہ نہ بنا سکیں اور بالآخرشام تک مجھے ایف آئی اےآفس میں منتقل کردیا گیا۔

11بجے تک مجھے ایک سیل میں ڈال دیاگیا جہاں مجھے پرتشدد کرنے کے ارادے سےدرجہ حرارت کو کم کرنے کیلئےسیل کے ایک کونے میں برف کےٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ میں نےمعمول کےمطابق شلوارقمیض زیب تن کی ہوئی تھی اور بہت زیادہ ٹھنڈ تھی اور میں نے خود کو گرم رکھنے کیلئے آہستہ آہستہ چلنا شروع کردیا۔ یہ پہلی بار تھا کہ جب مجھے مجسٹریٹ کے سامنے ریمانڈ کیلئے پیش کیاگیا تو مجھے پتہ لگا کہ ایک مقامی مجسٹریٹ کی زیرنگرانی ایف آئی اے کی ٹیم نےلاہورمیں ایک انسانی سمگلر کےگھرچھاپہ مارا ہےاور یہ شبہ ہے کہ میں نے ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرکے ساتھ اس گھر سے کئی تولے سونا چوری کیاتھا۔

یہ مضحکہ خیزالزام تھاکیونکہ میں نہ اس گھرپرموجود تھا نہ ہی چھاپہ مار ٹیم کاحصہ تھا لیکن ایف آّئی اے نےمیری گرفتاری کو جائز قرار دینے کیلئے میرے خلاف ایک مقدمہ دائرکر دیا تھا۔ یہ مقدمہ ان جعلی مقدمات میں سے ایک تھا جو مجھے دبائو میں لانے کیلئے میرے خلاف دائر کیےگئےتھے۔ تاہم یہ تمام جعلی مقدمات ٹرائل کاامتحان پاس نہ کرسکے اور مجھے ان تمام مقدمات میں بری کردیاگیا۔

بدقسمتی سے ان جعلی مقدمات کے باعث مجھے اڈیالہ جیل جانا پڑا تھا اور مجھے مذکورہ بالا مقدمات میں تحقیقات کے باعث ایک سال تک مشکلات کا سامناکرناپڑا کیونکہ فاروق لغاری اور شریف خاندان مجھے سبق سیکھانا چاہتا تھا۔ مجھے دوبار وزیراعظم ہائوس لےجایاگیااور چھوڑدیاگیااورمیرے شہیدمحترمہ بے نظیربھٹو اور آصف زرداری کے خلاف جعلی مقدمات میں بیان دینےکےعوض مجھےسینئرعہدوں کی آفرکی گئی۔ کیسا اتفاق ہے کہ میں نے جیل کی کھولی نمبر1میں ایک سال گزارا( یہ قید خانہ کھولی کے نام سے مشہور ہے) جہاں بعد میں حتٰی کہ شہباز شریف کورکھاگیا اور پھر آصف زرداری بھی وہاں قید رہے۔ مجھے افسوس ہوتاہے کہ اب میاں نواز شریف اسی کھولی نمبر1میں ہیں۔

میاں شہباز شریف ایک بار بطور وزیراعلیٰ جیل کےمعائنےکیلئےآئےتھے لیکن وہ میری کھولی میں نہیں آئےلیکن بعد میں جلاوطنی کےدوران مجھے پتہ لگاکہ جنرل پرویز مشرف نے انھیں اسی کھولی میں رکھاتھا۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ اس دورے کے دوران ان کا ہیلی کاپٹرمیری جیل کے اوپرسے اڑا اور چند لمحوں کیلئے وہاں ساکن ہوگیاتھا اور میں اپنی ’’دلائی‘‘ پر تھا، دلائی قیدیوں کی ایک گھنٹے کی چہل قدمی کانام ہے۔

میں نےاپنے اٹینڈنٹ کوبتایاکہ میاں شہباز نے کافی تکبر دکھایا اور مجھے یہ باور کرایاکہ میرے ماتحت ایف آئی اے نےمقدمات بنائےاور اب وہ دیکھ رہاہے اورمجھے اپنی طاقت دکھائی اوروہ دن دور نہیں جب وہ یہاں اسی قید خانے میں آئیں گےاور بعد میں یہ ہوگیا۔ غالباً ان کے اسی کھولی میں آنےکی وجوہات کچھ اور تھیں۔ اس بیرک کو بے بس وزراء، وزیراعظم اور مستقبل کے صدرکورکھنےکااعزاز حاصل ہے۔ میں نے اپنی جیل کی یادداشتوں پر ایک کتاب لکھی ہے جوجلد ہی شائع ہوگی۔ مجھےبطورایف آئی اےآفیسر اپنی قانونی ڈیوٹی کرنے پر قید کیاگیا اور مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہےکہ میاں نواز شریف اسی کھولی میں پاک لین فلیٹ کےمعاملے کےباعث ہیں جس کی تحقیقات میں نے کی تھیں اور وہ اسی میں ملزم قرارپائےاور ہمیں اس سے بڑا سبق ملتا ہے کہ یہ ’’وقت‘‘ہے جو خود ایک تفتیش کار اور جج ہے اور یہ ’’وقت‘‘ ہی ہے جس نے نواز شریف کو قید کیاہے۔ یہ وہی مقدمہ تھاکہ میرے بہت سے تفتیش کاروں کو جلا وطن ہونا پڑااور ان میں سے ایک سجاد حیدر ہیں، جو اس وقت اسسٹنٹ ڈائریکٹرتھے (بعد میں ڈائریکٹرایف آئی اے ریٹائر ہوئے) اور بعض انسپکٹرزک و ان تحقیقات کے باعث معطل اور برطرف کر دیا گیا۔

جب میں 25سال پہلے دیکھتا ہوں تو میں قائل ہوجاتاہوں کہ میں ان مقدمات کی تحقیقات کرنےکےباعث 11سال جلا وطن رہا۔ میرا یقین کریں کہ میں خوش نہیں ہوں کہ نواز شریف قید ہیں لیکن مجھے غصہ آتا ہے کہ ہمارا کریمنل جسٹس سسٹم پرانا ہوچکاہے کیونکہ اسے ٹائم لائن کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ ہماری جیلوں نےکئی سیاسی قیدیوں، جرنیلوں اورناکام بغاوت پردیگر آرمی افسران کی میزبانی کی ہے اگرچہ جنرل مشرف اڈیالہ سے بچ سکتے ہیں اور اپنے فارم ہائوس میں چھوٹے اڈیالہ جاسکتے ہیں۔

مجھے یاد آ رہا ہے کہ جس خوفناک شام مجھے ایک سیف ہائوس سے جیل لے جایا گیا جہاں میں نے حسین لوائی کے ساتھ کچھ گھنٹے گزارے وہ اس وقت فیصل بنک میں ملازم تھے ان کے علاوہ وہاں سابق چیف سیکرٹری مسٹر قریشی بھی موجود تھے۔ جیل کے گیٹ میں داخلہ بہت غیر دوستانہ ہوتا ہے، نیا جانے والا چاہے انڈر ٹرائل ہی کیوں نہ ہو خود کو مجرم تصور کرتا ہے۔ ’’بی‘‘ کلاس کسی کام کی نہیں کیونکہ وہاں کوئی سہولت نہیں ہے۔ مجھے بھی کھولی نمبر 1سے دوسرے سیلوں میں منتقل کیا گیا جہاں بطور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے میرے گرفتار شدہ لشکر جھنگوی کے لوگ قید تھے۔ یہ دہشتگردوں کیلئے مخصوص سیل تھا اور مجھے سزا دینے کیلئے وہاں منتقل کیا گیاتھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ شیخ رشید کو بھی یہاں رکھا گیا تھا۔

یہ ایک چھوٹا کمرہ تھا جس کی ایک دیوارمیں ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی۔ ایک کونے میں چھوٹا سا بغیر دیوار یا پردے کا ٹوائلٹ بنا تھا اور یہ صرف قیدی کو بدبو سے پریشان کرنے کیلئے بنایا گیاتھا ۔ ساتھی قیدیوں کے ساتھ گزر بسر کرنا ایک دوسری کہانی ہے تاہم اس سے مجھے ان کی آپ بیتیاں سننے کا موقع ملا اور ان کی لڑکپن سے لیکر دہشتگرد بننے تک کی کہانی سننے کو ملی۔ میں کتاب میں ان کو گرفتار کرنے سے لیکر ان کے ساتھ قید رہنے تک کے تجربات ضبط تحریر میں لائوں گا۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے ان سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

انہوں نے میری عزت کی۔ اگرچہ اس وقت کی حکومت نے مجھے اسی مقصد کیلئے دہشت گردوں کی بیرک میں رکھا تھا کہ میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہو جائوں گا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ حکومت کو شک تھا کہ میں جیل سے بھاگ جائوں گا اور اسی لئے انہوں نے مجھے دہشت گردوں کی ہائی سکیورٹی بیرک میں منتقل کیا۔ مجھے امید ہے کہ میاں صاحب کو دہشت گردوں یا پی ٹی آئی کی طرف رجحان رکھنے والے قیدیوں کے ساتھ نہیں رکھاجائےگا ۔ میں میاں نواز شریف اور مریم نواز کو لمبا عرصہ جیل میں نہیں دیکھ رہا یہ صرف چند ہفتوں کا معاملہ ہے کیونکہ ان کے لئے قانونی راستہ موجود ہے ۔یہ بدقسمتی ہے کہ تین دفعہ کا وزیراعظم جیل میں ہے لیکن ہماری سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو قید سیاستدان کو مزید ابھارتی ہے اور لوگ اس کو بھی سیاستدان کی اضافی کوالیفکیشن گردانتے ہیں۔

میرے خیال سے شیخ رشید تصدیق کریں گے کیونکہ وہ بھی اس یونیورسٹی جسے اڈیالہ کہتے ہیں کے سٹوڈنٹ رہے ہیں۔ آخر میں نواز شریف اور مریم نواز کے وطن واپسی کے فیصلے کو سراہتا ہوں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی کی مدد کرنے کیلئے موجودہ سیاسی ماحول کو کیسے استعمال کرتے ہیں یا کہ وہ اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو مریم کے مقابلے میں ترجیح دیں گے۔ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی کے استقبال کیلئے ایئرپورٹ بھی نہ پہنچ سکے۔

نواز شریف کی توقع تھی کہ شہباز شریف بڑا مجمع لیکر ایئرپورٹ آئیں گے ۔میاں نواز شریف کو ایئرپورٹ ٹھیک اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جیسے مشرف دور میں ان کی واپسی پر ہوا تھا۔ ان کی جماعت کی طرف سے بھی وہی چیز دہرائی گئی۔ فرق صرف اتنا ہی ہے کہ اس بار نواز شریف بلا کسی رکاوٹ جیل منتقل کر دیئے گئے اور ان کے بھائی ناقابل وضاحت وجوہات کی بنا پر ایئرپورٹ نہ جا سکے شاید وجہ نواز شریف کو معلوم ہو۔ اس کے علاوہ نواز شریف مریم نے گرفتاری کے وقت میڈیا کے سامنے کافی بالغ نظری کا ثبوت دیا ۔ اب دیکھنا ہے کہ شہباز شریف کا نواز شریف اور مریم کو ریلیف دلوانے کیلئے اگلا اقدام کیا ہو گا۔ میری خواہش ہے کہ نواز شریف اداروں کے خلاف نہ بولتے جبکہ وقت کے ساتھ میں نے دیکھا ہے کہ انہوں نے خود کو کافی بہتر کیا ہے۔ دیکھتے ہیں نواز شریف کی واپسی سے ن لیگ کیسے فائدہ اٹھا پاتی ہے۔”

تحریر؛ سینیٹر رحمان ملک

بشکریہ؛ روزنامہ جنگ

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).