کاش کینیڈا میں کوئی ایدھی ہوتا؛ ایک بے کفن مرتے گورے کی کہانی


میں ایک بے گھر کینیڈین گورا تھا۔ آج ایک سڑک کے کنارے ایک کونے میں میری روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ۔ میں اس کونے میں کئی سال سے بس پڑا رہتا تھا ۔ کئی بہاریں آئیں اور کئی چلی گئیں ۔ میں نے پھولوں کو کھلتے ہوئے مُرجھاتے ہوئے اور پھر مٹی میں ملتے ہوئے دیکھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے میں نے ایک دن اس دنیا میں آنکھ کھولی تھی اور پھر مجھ پر جوبن آیا تھا اور آج مجھے خاک کر دیا جائے گا۔

ہر سال سردیوں میں میری موت واقع ہوتے ہوتے رہ جاتی تھی۔ میں ہر سال یہ سوچتا تھا کہ اس سال مجھے اس بے معنی زندگی سے ضرور چھٹکارا مل جائے گا لیکن میری دعا ہر سال رد ہو جاتی تھی۔ آپ تو جانتے ہی ہونگے کہ کینیڈا کی سردی بہت ظالم ہے۔ جب ددجہ حرارت نکتہ اجماد پر پہنچ جاتا تھا تو میں سڑک کے کنارے بالکل ایک گیند کی صورت اپنے آپ کو ارماڈیلو جانور کے طرح رول کر لیتا تھا لیکن یہ ظالم سردی ہر طرف سی مجھ پہ حملہ کرتی تھی لیکن شاید ماں نے بچپن میں کچھ ایسی غذا کھلائی ہو گی جو آج تک زندہ تھا۔

ماں!!! ماں کو آخری بر کب دیکھا تھا یاد ہی نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ وہ نشہ کرتی تھی ۔ میرا باپ شراب پیتا تھا اور میری ماں کو بہت مارتا تھا ۔ اسی غم کو غلط کرنے کے لیے میری ماں نے نشہ کرنا شروع کر دیا ۔ لیکن ایک دن چائلڈ پروٹیکشن والے لوگ ہمارے گھر آ کر مجھے لے گئے ۔ مجھے بتایا گیا کہ میں اپنے گھر میں محفوظ نہیں ہوں ۔ حالانکہ گھر سے نکالے جانے کے بعد میں کہیں بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ ایک گھر سے دوسرے گھر بھیجا گیا ۔ میں کسی خاندان کے ساتھ رہ نہیں پایا ۔ جو بھی مجھے گود لیتا تھا وہ میری بد مزاجی سے تنگ آ کر مجھے واپس چائلڈ پروٹکشن والوں کے حوالے کر دیتا تھا۔  آخری خاندان جو مجھے اپنے گھر لے گیا میں نے ان کو بہت تنگ کیا ۔ ایک دن انھوں نے مجھے کمرے میں بند کر دیا جہاں سے رات کو میں کھڑکی توڑ کو بھاگ گیا ۔ تب سے آج تک بس سڑکوں پہ مارا مارا پھرتا تھا۔ زندگی گزرتی گئی اور عمر بھی ۔ کبھی کوئی کھانے کو دے دیتا تھا تو کھا لیتا تھا اور کبھی کئی کئی دن بھوکا رہتا تھا۔ بیماری اتی تھی اور تھک ہار کر چلی جاتی تھی۔

میں سردی گرمی ایک ہی کپڑے پہنے رہتا تھا۔ کبھی مجھ سے کوئی پوچھتا تھا کہ بھائی تم نے گرمیوں میں بھی سردیوں کی جیکٹ کیوں پہنی ہوئی ہے تو میرا جواب یہی ہوتا تھا کہ کیا کروں بے گھر جو ہوں, جیکٹ اتاروں گا تو کوئی اور بے گھر اٹھا کر لے جائے گا. پھر میں سردیوں میں کیا پہنوں گا ؟ اب مجھے اتنی بھی نفرت نہیں زندگی سے ۔ دو دن کے بعد کوئی نہ کوئی کھانے کو کچھ دے جاتا تھا تو زندگی کی گاڑی چلتی رہتی تھی۔ اس بار کیا ہوا کہ کوئی کھانا دینے نہیں آیا اور میری حالت اتنی خراب ہو گئی کہ اب بالاخر موت قریب تھی۔ میں یہاں پڑا تھا اور لوگ مجھے دیکھ کر میرے پاس سے گزر جاتے تھے کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ میں نشہ کیے پڑا ہوں۔ میرے جسم میں اتنی جان بھی نہ تھی کہ ایک لفظ بھی کہہ سکوں۔

آج میری آخری سانس میرے بدن سے یوں چمٹی ہوئی تھی جیسے میری ماں ہو جو مجھے جانے سے پہلے اذنِ وداع نہ دیتی ہو۔ جب میری سانس ٹوٹی تو کوئی میرے قریب نہ تھا۔ میں نے بہت چاہا کہ کسی کو آواز دوں لیکن میری آواز ہی نہیں نکل رہی تھی ۔ آخرِ کار میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا ۔

کئی گھنٹے گزرنے کے بعد ایک پولیس والے نے آ کو میرے سرد جسم کو ہلایا تو ان کو علم ہوا کہ میں مر چکا ہوں۔ فوراً ایمبولینس بلوائی گئی۔ پییرامیڈکس نے آ کر میرا معائنہ کیا اور جلد ہی میری موت کی تشخیص کر دی گئی۔ خس کم جہاں پاک۔

میرے جسم پر سال ہا سال کی گرد پسینے کے ساتھ یکساں میری کھال کا سنگھار بن چکی تھی ۔ نہ جانے آخری بار میں نے کب غسل کیا تھا۔ لیکن اب میں خوش ہوں کیونکہ اب میری موت کے بعد مجھے نہلا دھلا کے اچھے کپڑے پہنا کر خوبصورت کوفن میں لٹا کر میرے دائمی اور مستقل گھر میں لٹا دیا جائے گا جہاں سے نا مجھے کوئی نکالے گا ،نا مجھے اس بات کا ڈر ہو گا کہ کوئی میری سردیوں کی جیکٹ چرا کر لے جائے گا۔ اب شاید میری قبر ٹھنڈی ہو۔ ارے لیکن مجھے ابھی یاد ایا کہ اب بے گھروں کو دفنایا نہیں جاتا بلکہ ان کےاعضا سائنسی تحقیق کے لیےاستعمال کیے جاتے ہیں اور کچھ کو کریمیشن کے ذریعے جلا دیا جاتا ہے ۔ لیکن میں تو عیسائی تھا ۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں میں اپنی مرضی سے مرنے کےبعد دفن بھی نہیں ہو سکتا؟

سنا ہے دور کہیں ایک ملک ہے پاکستان  وہاں ایک ایدھی صاحب ہوا کرتے تھے جنھوں نے ایک ایسا ادارہ بنایا جو نا صرف بے گھر لوگوں کو پناہ دیتا ہے بلکہ ان کے مرنے کے بعد انکو کفن دے کر دفناتا بھی ہے ۔ کاش دنیا کے ہر ملک کو پاکستان کے ایدھی صاحب جیسا کوئی مسیحا نصیب ہو جائے اور سارے بے گھر افراد مرنے کے بعد دفن ہو سکیں تا کہ مرنے کے بعد وہ بے گھر تو نہ ہوں ۔ مر کے بھی بے گھر ہی رہے تو کیا فائدہ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).