کوئی تو میاں صاحب سے پوچھے


ہمارے تین بار کے وزیرِ اعظم المعروف شہنشاہِ جمہوریت مع صاحبزادی یعنی مستقبل کی ملکہء جمہوریت لندن سے وطن پدھارکر سیدھے اڈیالہ کی سلاخوں کے پیچھے جا پہنچے ہیں۔ واپسی کے اس سفرمیں ن لیگ کے حامیوں کے انبوہِ کثیر کے ساتھ ساتھ صحافیوں اور اینکرز کا ایک جمِ غفیربھی ہمراہ تھا۔ اس سفر سے پہلے صرف لفافہ صحافی کی اصطلاح سُنائی دیتی تھی لیکن اس بار ”پری پیڈ جرنلسٹ“ اور ”ایزی لوڈ اینکرز“ کی اصطلاحیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ شنید ہے کہ جہاز میں دورانِ سفر بیشتر صحافیوں اور اینکرزنے میاں صاحب اور صاحبزادی ء باتمکیں سے انٹرویو اور کچھ نے بات چیت بھی کی مگر اس کی تفصیل خال خال رہی۔

صحافیوں اور اینکرز کی فوج ظفر موج کے جلو میں سفر کرتے پدرِ شفیق کے ساتھ ہی براجمان صاحبزادی ذی احتشام سے پانچ سات خاتون جرنلسٹ اور اینکرزمیں سے کوئی ایک نہ بھی کورنش بجا لاتیں مگرجان کی امان پاتے ہو ئے یہ عرض کرنے کی جسارت توکرتیں کہ اے مستقبل کی ملکہ جمہوریت!آپ نے ثنا بُچہ کے پروگرام میں ببانگِ دُہل شاہی اعلان فرمایا تھا ”میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں ہے“ وہ کیا ہوا؟ یہ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے تحت ایون فیلڈ اور دیگر جائیدادیں کس جادوگری کا کمال ہیں اور یہ آپ کے کاغذاتِ نامزدگی میں جو جائیدادیں مذکور ہیں کیا اب یہ الہ دین کا چراغ رگڑنے سے ظاہرہوگئی ہیں؟ کاش! ان میں سے کوئی ایک سوال ہی کر دیتیں جس کی ایک جھلک ٹی وی پرنہ سہی سوشل میڈیا پر ہی دکھائی دے جاتی۔

طویل عرصہ تک اقتدار کے راج سنگھاسن پر براجمان رہنے والے مہارجہ لندن پرست و پلٹ سے کوئی دورانِ سفر استسفارکرتا کہ اے جمہوری افکار کے پرچارک اوراب آمریت کے خلاف علم بلند کرنے والے! آج آپ قوم کو اپنے لیڈر بننے کا مژدہ سُنا رہے ہیں، کبھی اردگان، کبھی مہاتیر اور کبھی نیلسن مینڈیلا کا نامِ نامی زبان پر آ رہا ہے۔ حالانکہ آپ نے اس پہلے بھی کہا تھا کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا لیکن آپ تو تختی پر املا ء کا ایک ایک حرف بھی لکھتے رہے۔ کاش کوئی اس جمہوری لبادے میں ملبوس لیڈر کے گوش گزارکرتا کہ جنابِ من! قوم کے غیور اور جری لیڈر ایسے نہیں بن جاتے۔ اس کے لیے اپنا من مار کر، بیش بہا قربانیاں دے کراور کئی کئی سال قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرکے رہنما بنتے ہیں۔

اردگان، مہاتیر اور نیلسن مینڈیلا کے اپنے یا بچوں کے غیرممالک میں ایون فیلڈ ایسے کئی مہنگے فلیٹ اور دیگر جائیدادیں نہیں ہوتیں، نہ ہی ان کی نیلسن اور نیسکول جیسی آف شور کمپنیاں مع ثبوت نکل آتی ہیں (جنہیں الحمدللہ کہہ کر قبول بھی کر لیا جاتا ہے۔ )اس سے بڑھ کر ان کی اولادیں غیر ممالک کی شہری نہیں ہوتیں اورنہ ہی ان کو اپنے ملک سے اشتہاری ڈکلیئرکیا جاتا ہے۔ جو لیڈر ہوتے ہیں وہ اپنے قول، فعل اور عمل کے پابند ہوتے ہیں۔ کاش کوئی صحافی ہمت کر کے پوچھ ہی لیتا کہ آپ نے قومی اسمبلی میں علی الاعلان کہا تھا کہ ”حضرت یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کے فلیٹ خریدے“ ان ذرائع کے بار ے میں جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آن دی ریکارڈ نہ سہی آف دی ریکارڈ ہی کچھ پوچھ لیتے۔

سُننے میں آیا ہے کہ دورانِ سفر میاں صاحب اپنی صاحبزادی کو پدرانہ شفقت کے حصار میں لیے ہوئے صحافیوں سے شکوہ کناں ہوئے کہ ”مریم کا قصور کیا ہے؟ اور اس کو سزا سنا کر قوم کی بیٹیوں کی توہین کی گئی ہے۔ “ کاش عاصمہ شیرازی یا کوئی اور صحافی انہیں یاد کراتا کہ آج اپنے پر بات آئی تو صدائے گریہ بلند ہو رہی ہے۔ عورت کی حکمرانی کو اسلام اور پاکستان کے لیے خطرہ آپ ہی نے قراردیا تھا۔ اب ایسی کیا افتاد آن پڑی ہے صاحبزادی کو رضیہ سلطانہ بنانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

جب قوم کی بیٹی بے نظیر اور اس کی ماں نصرت بھٹو کو پابندِ سلاسل کیا گیا، قیدِ تنہائی میں رکھا گیا اذیتیں دی گئیں، آپ اس وقت ایک آمر کی ناک کا بال تھے۔ جب آپ ہی کہنے پر سیف الرحمن نے بے نظیرکے خاندان پر ڈھیروں مقدمے بنا دیے جس پر بے نظیرچھوٹے چھوٹے تین بچوں کے ساتھ کبھی لاہور، ملتان اور کبھی راولپنڈی میں نہ صرف مقدمات کاسامنا کرتی بلکہ آصف زرداری سے ملنے کے لیے جیلوں کے باہربچوں سمیت کئی کئی گھنٹے کھڑے رہ کر تماشا بھی بنتی۔

کاش اس سفر میں کوئی صحافی یہ سوال بھی دراز کرتا کہ میاں صاحب ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب آپ کی آشیر باد سے بے نظیر کی کردار کشی کی جارہی تھی ننگی ننگی تصوریروں سے مزین پوسٹر جہازوں سے پھینکے جا رہے تھے اس وقت آپ کے دل میں کسی بیٹی کسی ماں کا درد نہیں جاگا۔ میاں صاحب کو یہ بھی یاد کرایا جاتاکہ قوم کی ایک بیٹی عافیہ صدیقی عرصہ دراز سے امریکہ میں قید بھگت رہی ہے کیا آپ نے کبھی اس کی رہائی کی کوشش کی یا کسی فورم پر آواز بلند کی؟ آپ ہی کے خاندان کی ایک بہو لاہور کی سڑکوں پر انصاف کے لیے خوار ہوتی رہی مگر آپ تو کیا آپ کے برادرِ خورد نے بھی درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ کاش یہ درد اس وقت جاگ جاتا جب ماڈل ٹاؤن میں نہتی ماؤں، بہنوں بیٹیوں کو دن دہاڑے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا اوران کے ورثا آج تک انصاف کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

صحافیوں کی فوج ظفر موج میں سے کوئی ایک ہی سوال داغ دیتا کہ اے دشمنوں کے خیر خواہ! مانا کہ ا ٓپ دوستی کو فروغ دینا چاہتے تھے مودی کی حلف برداری پر آپ خراماں خراماں مع تحفے تحائف تشریف لے گئے، مودی آپ کی نواسی کی شادی پر فرحاں فرحاں دوڑا چلا آیا۔ جندال سے آپ کے کاروباری مراسم ہیں آپ اُسے بغیر ویزے کے جہاں مرضی آنے جانے دیں قوم کو اس سے کوئی غرض نہیں مگر یہ تو بتا دیں پاکستان کے دشمن اور دہشت گرد کلبھوشن یادو کے بارے میں آپ کے لب کیوں سلے رہے؟ اقوامِ متحدہ میں اپنی تقریرمیں آپ نے ذکرتک کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اس سے بڑھ کر آپ نے نان اسٹیک ایکٹرز کو اجازت دینے والا بیان داغ ڈالا جس کی گونج مشرق و مغرب سے سنائی دیتی رہی۔ پاکستان پر انگلیاں اٹھتی رہیں اور اس کے نتائج بھی بھگتنے پڑے۔

اطلاعات کے مطابق دورانِ سفر میاں صاحب کے پاس جب ایک صحافی پہنچا تو کانوں پر ہیڈ فون لگائے کسی پرانی دھن سے محظوظ ہو رہے تھے اگر وہ صحافی بے باک ہوتا تو عرض کرتا اے شہنشاہِ موسیقی پسند کم اور صورتِ مغنیہ پسند زیادہ! کبھی آپ مری کی دلفریب وادیوں میں روبرو ہو کر ”وہ باتیں تری وہ فسانے ترے، شگفتہ شگفتہ بہانے ترے“ سن کر روح کی گہرائیوں تک خود تو حظ اٹھاتے ہی تھے مگر آپ نے اس گیت کو پوری قوم پر منطبق کر دیا قوم آپ کے شگفتہ شگفتہ بہانوں ہی سے توعرصہ دراز تک بہلتی رہی۔ کاش کوئی ان کے پسندیدہ اداکار دلیپ کمار کا وہ گانا یاد کرا دیتا جس کے بول ہیں، ”سالا میں تو صاحب بن گیا، صاحب بن کر کیسا تن گیا۔ “ اس میں لفظ صاحب کی بجائے ”لیڈر“ لگا لیں تو بات کچھ سمجھ میں آ جاتی ہے کہ لیڈر کیسے بن جاتے ہیں؟

مملکتِ خداداد کے سیاہ و سفید کے مالک شہنشاہِ سیاست و جمہوریت جوگزشتہ پینتیس سال سے اقتدار کے تخت پرکسی نہ کسی طرح براجمان رہے اب اڈیالہ میں قید و بند کا شکار ہو کر کچھ اس قسم کے اشعار گنگنا رہے ہیں تو یہ سب ان کا اپنا کیا دھرا ہے۔

لگتا نہیں ہے د ل مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
بلبل کو باغباں سے ”اور “ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی ”ہے“ فصلِ بہار میں

ہمارے صحافی اور اینکرزجو اپنے مقابل سے بہت کچھ اگلوا لینے میں ماہر ہیں لندن سے واپسی کے سفر میں لب بستہ دکھائی دیے سوالات کے گھنے تاریک جنگل سے جوابات کی ایک کرن بھی نمودار نہ ہو سکی۔ وہ سوالات جو اوپرمذکورہیں صرف وہی نہیں بلکہ ڈھیروں اور بھی ہیں اور قوم ان جوابات کی منتظر ہے۔ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی وقت کی پٹاری سے ہر شے برآمد ہو کر رہتی ہے۔ اس سے پہلے کہ خاموشی غالب آجائے یا کچھ اور، جوابات کے لیے کوئی تو میاں صاحب سے پوچھے، آخر کوئی تو پوچھے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).