مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے لئے مشکل صورت حال



مسلم لیگ ن کے بارے میں ویسے تو اب یہ تاثر پھیل چکا ہے کہ یہ اینٹی اسٹیبشلمنٹ پارٹی ہے۔ لیکن حقیقی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت کی مسلم لیگ ن بطور ایک سیاسی جماعت الگ اور مختلف جگہوں پر کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ تو واضح نظر آرہا ہے کہ مسلم لیگ ن دو گروپوں میں تقسیم ہے۔ ایک گروپ کو چھوٹے میاں صاحب یعنی شہباز شریف لیڈ کرتے نظر آرہے ہیں اور دوسرے گروپ کے لیڈر بڑے میاں صاحب یعنی نوازشریف ہیں جو اس وقت پاکستانی سیاست میں بظاہر مزاحمت اور جمہوریت کی علامت بن چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا وہ مزاحمتی گروپ جو نوازشریف صاحب کے ساتھ کھڑا ہے وہ ستر سالہ سیاست اور طرز حکومت کا دھارا بدلنا چاہتا ہے۔ یہ گروپ طاقتور جمہوریت کا ارتقا چاہتا ہے، ایسی جمہوریت جس کو اسٹیبلشمنٹ یا مقتدر قوتیں نقصان نہ پہنچا سکیں۔

جمہوریت کے لئے مزاحمت کرنے والے نوازشریف اس وقت جیل میں ہیں ،ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ ایک طرف اس گروپ کو اسٹیبشلمنٹ سے شدید دباو کا سامنا ہے تو دوسری طرف خود مسلم لیگ ن کے دوسرے گروپ سے بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ شہباز شریف اور ان کا گروپ مصلحت یا اقتدار کی خاطر اڈیالہ جیل کے باسی سے کچھ دور نظر آرہا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کا وہ میڈیا سیل یا سوشل میڈیا سیل جو ایک زمانے میں مریم بی بی کے اشاروں پر چلتا تھا۔ اس میڈیا سیل کے تمام اسٹاف کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس کی جگہ نئی ٹیم آگئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چھوٹے میاں صاحب نے مسلم لیگ ن کی نئی میڈیا ٹیم کو ہدایات جاری کی ہیں کہ جارحانہ پوسٹ سوشل میڈیا پر نہ کی جائے۔ فوج یا عدلیہ کے خلاف کوئی بات سوشل میڈیا پر شئیر نہ کی جائے۔ خلائی مخلوق نامی الفاظ اب نظر نہیں آنے چاہیئے۔

میڈیا سیل اپنی تمام توجہ ڈویلپمنٹ پروجیکٹس پر لگائے۔ عوام کو آگاہ کیا جائے کہ مسلم لیگ ن نے پانچ سالہ دور میں کتنے ترقیاتی کام کئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف کے جیل جانے کے باوجود شہباز شریف کی اب بھی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ کسی طرح اسٹیبشلمنٹ سے صلح ہوجائے۔ اس وقت مسلم لیگ ن کا شہباز شریف دھڑا یہی چاہتا ہے کہ ایسا سمجھوتا طے پا جائے جس سے کم ازکم پنجاب کی حکومت شہباز شریف کو دوبارہ مل جائے۔ شہباز شریف کو اس وقت مسلم لیگ ن میں اس دوسرے گروپ کا سامنا ہے جو نوازشریف کا حامی ہے اور ان کے بیانیے کا حامی ہے۔

ایک طرف اگر شہباز شریف کو یہ چیلنج درپیش ہے تو دوسری طرف عوام میں بھی یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ شہباز شریف نوازشریف سے بے وفائی کررہے ہیں ،وہ نوازشریف کے استقبال کے لئے بھی ائیر پورٹ نہیں پہنچے اور اب ان کی مزاحمتی پالیسی میں بھی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ووٹ اب بھی نوازشریف کے نام پر ہی مل سکتے ہیں کیونکہ عوام میں ان کا بیانیہ بک رہا ہے۔ لیکن شہباز شریف خود اس بیانیہ کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

مبصرین کی رائے کے مطابق شہباز شریف جس راستے پر چل نکلے ہیں اس سے مسلم لیگ ن پنجاب میں بھی اقتدار سے محروم ہو سکتی ہے۔ اب اگر 25 جولائی کو عوام نے شہباز شریف کے سیاسی نظریئے کو رد کردیا تو سوال یہ ہے کہ مستقبل میں مسلم لیگ ن میں شہباز شریف کے دھڑے کا کیا انجام ہوسکتا ہے۔ بظاہر نوازشریف اور مریم نواز مشکل میں دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن کچھ وقت کے بعد مبصرین کے مطابق نوازشریف کی بیٹی مریم نواز مسلم لیگ ن کی قائد ہوں گی اور نوازشریف پارٹی کے رہبر۔

یہ تو ہے مسلم لیگ ن کی اندرونی کشمکش کی کہانی،اب چلتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک اور میثاق جمہوریت کیوں یاد آگیا ہے؟کیوں بلاول بھٹو زرداری کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ آئی جے آئی ٹو وجود میں آچکی ہے؟ مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی سندھ میں جے ڈی اے یعنی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سےخوف زدہ ہے ،اس کے علاوہ سوشل میڈیا ڈسکورس اور اپنی خراب کارکردگی کی وجہ سے بھی پیپلز پارٹی سندھ میں کسی حد تک ناپسندیدہ جماعت بن رہی ہے۔

مبصرین کے مطابق پچیس جولائی کا دن پیپلزپارٹی کے لئے بھی ڈراونا خواب ہوسکتا ہے۔ اگر مسلم لیگ ن پنجاب میں اور پییپلز پارٹی سندھ میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں تو پچیس جولائی کے انتخابات کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کریں گی۔ لیکن اس وقت سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہوگا۔ شہباز شریف مسلم لیگ ن میں اپنی وقعت کھو چکے ہوں گے اور بلاول سندھ حکومت کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹ سے محروم ہوں گے۔ کیا اس وقت نیا میثاق جمہوریت کوئی بہت بڑی تبدیلی لا پائے گا؟ مبصرین کے مطابق اس وقت جی ڈی اے اور تحریک انصاف کو مقتدر قوتوں کی بھرہور حمایت حاصل ہے جو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لئے نیک شگون نہیں ،اس لئے مستقبل میں سیاسی درجہ حرارت بہت زیادہ ہوگا جو تحریک انصاف کی حکومت کو اگلے پانچ سال تک مسلسل دباو میں رکھے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).