جمہوری دور میں قومی اداروں کا کیا حال ہوتا ہے


شفٹ روٹین ورک اور نجی امور مثلا، کھانے پینے سے نمٹ نمٹا کر جب کنٹرول روم پہنچے تو نصف شب بیت چکی تھی۔ کنٹرول روم میں چائے کے ساتھ بات چیت کا دور چل رہا تھا اور موضوع سیاست تھا، کیونکہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت ڈانوا ڈول تھی۔ گو کہ جنرل پرویز مشرف باوردی صدر تھے، لیکن صریح آمرانہ اور ذاتی خواہشات پر مبنی اقدامات کی وجہ سے وطن عزیز اور بین الاقوامی سطح پر مقبولیت کھوتے جارہے تھے۔ اسی وجہ سے مرحومہ بے نظیر بھٹو سے این۔ آر۔ او پر مجبور ہوئے اور عام انتخابات سے قبل مرحومہ بے نظیر بھٹو کی وطن عزیز واپسی پر راضی ہوئے ، گو کہ بعد میں مرحومہ بے نظیر بھٹو کو وطن واپسی سے باز رکھنے کی کوشش بھی کرتے رہے۔

انتخابات کی فضا میں سب سے دلچسپ موضوع انتخابی سیاست پر بحث ہی ہوتاہے۔ مغل صاحب کا تعلق ٹرید یونین کے حوالے سے پیپلز پارٹی تھا، انہوں نے کہا : ’’ مجھے تو ہدایات موصول ہوئی ہیں، کہ جلد ازجلدشفٹ ڈیوٹیز ترک کرکے جنرل ڈیوٹی جوائین کرلوں، تاکہ حلقے کے سیاسی امور میں حصہ لے سکوں۔ ‘‘ غوری صاحب نے شرکائے بحث سے سوال کیا : ’’ یہ بتائیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوجاتی ہے تو، کیا ہمارے ادارے میں ٹریڈ یونین بحال ہوجائے گی؟ ‘‘ کیونکہ میاں نواز شریف کے دوسرے حکومت میں ادارے کی مالی ابتری اور بدعنوانی کو دیکھتے ہوئے، ٹریڈیونین پر جو پابندی لگائی گئی تھی، وہ اب تک برقرار تھی۔

سوال کا جواب مغل صاحب نے نہایت پرجوش انداز میں دیا اور کہا : ’’ بالکل بحال ہوں گی ، بھائی مجھ کو ایسے ہی تو جنرل ڈیوٹی میں نہیں بلایا جارہا، مقصد یہی ہے ، کہ جنرل ڈیوٹی میں ٹریڈ یونین کے حوالے سے بھی اپنی ذمے داریاں نبھاؤں۔ ‘‘ مغل صاحب کا جواب سن کر غوری صاحب خوشی سے پھولے نہیں سمائے اور کہا : ’’ یہ ہوئی نا بات۔ ‘‘ ساری گفتگو ہم بھی چپ چاپ سن رہے تھے، مغل اور غوری صاحب کے چہرے کی خوشی اور بدن بولی دیکھتے ہوئے، ہم نے بھی ایک سوال داغ دیا : ’’ اس کا مطلب ہے ، کالجز اور یونیورسٹیز میں طلبہ یونینز بھی بحال ہوجائیں گی؟ ‘‘

طلبہ یونین کی بحالی کے حوالے سے سوال سن کر غوری صاحب کے چہرے پر ناگواری اور پریشانی کے تاثرات ابھر آئے اور کہنے لگے ، ’’ نہیں بھائی ، ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ میرے بچے یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، وہ بتاتے ہیں، کہ طلبہ یونین کے عہدے دار طلبہ کو کس طرح تنگ کرتے ہیں اور بعض دفعہ تو نوبت قتل و غارت گری تک جا پہنچتی ہے۔ ‘‘ جواب سن کر ہم نے کہا : ’’ اس کا مطلب ہے، کہ اس دفعہ بھی حقیقی جمہوریت قائم ہونے کی توقع رکھنا، دیوانے کے خواب کی مانند ہے، کیونکہ عوام ابھی تک شعور کی اس منزل تک نہیں پہنچی ہے، کہ حقیقی جمہوریت کا خواب دیکھا جاسکے۔ ‘‘ تغلق صاحب مزے سے میز پر سر ٹکائے بیٹھے تھے اور سیاسی بحث سے لطف انداز ہورہے تھے ، کیونکہ ان کی ٹانگیں مسلسل ہل رہی تھیں۔

تغلق صاحب کو متوجہ کرنے کے لیے ان کا کندھا ہلایا اور کہا : ’’ آپ چپ چاپ بیٹھے خوب مزے لے رہے ہیں، ہیں ؟ ‘‘ تغلق صاحب نے ہونقوں کی طرح سب کی طرف دیکھا اور بولے : آپ کو یہ مغالطہ کیسے ہوگیا، کہ میں مزے لے رہا ہوں۔ خیر آپ کہہ سکتے ہیں ، کیونکہ آپ کا ’ مغالطہ پاکستان ‘ کا مطالعہ کافی وسیع ہے۔ بھائی ، یہ ٹانگیں میں نہیں ہلا رہا، یہ تو اس وقت سے خود بخود آٹو پر ہل رہی ہیں، جب سے یہ سنا ہے کہ جمہوریت کے ساتھ ادارے میں ٹریڈ یونین بھی بحال ہورہی ہے۔ ‘‘ تغلق صاحب کی باتیں سن کر مغل اور غوری صاحب کے چہرے اتر گئے اور مغل صاحب بولے : ’’ ایسا کیا ہوگیا ، کہ جمہوریت کا نام سن کر آپ کی ٹانگیں ابھی سے کانپنی شروع ہوگئیں؟ ‘‘

تغلق صاحب بولے : ’’ میاں مغل جیسے اسٹیل مل میں ، میں تم سے قبل آیا تھا ، اسی طرح میرے آباؤ اجداد برصغیر میں بھی تمہارے ہوتوں سوتوں سے قبل آئے تھے، اس لیے میں ہر حوالے سے تم سے سینیئر ہوں۔ خیر اب تم نے سوال پوچھ ہی لیا ہے تو سنو ، کہ مرحومہ بے نظیربھٹو کے پہلے دور حکومت میں جب تمہاری یونین ایک لسانی جماعت کے تعاون سے کامیاب ہوئی تھی، تو ادارے میں کیا خوب غدر مچا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ یہ کہہ کر بھرتی کرلیے گئے ، کہ ان کو مارشل لاء دور میں نکال دیا گیا تھا۔ اس میں کتنی سچائی ہے، کہ وہ مارشل لاء دور میں نکالے گئے تھے یا پلیسمنٹ بیورو کی سفارش پر آئے تھے، اپنی جماعت کے کسی باضمیر بندے سے پوچھ لو۔

پھر میاں نواز شریف کے پہلے دور میں ایک لسانی جماعت کی ٹریڈ یونین تھی، اس نے کیا کیا گل کھلائے، وہ تو تم کو پتا ہونے چاہیئیں۔ اسی وجہ سے میاں صاحب کے پہلے دور حکومت میں ٹریڈ یونین پر پابندی لگی۔ دوبارہ جب مرحومہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو، پھر یونین بحال ہوئی اور وہ کچھ کرگئی ، جس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ اگر اس دفعہ جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ٹریدیونین بھی بحال ہوتی ہے اور ماضی کے کرتوتوں کا اعادہ کرتی ہے، تو لکھ لو کہ یہ جو چار چار بونس ابھی لے رہے ہو، یہ تو ملنے سے رہے، تنخواہوں کے بھی لالے پڑجائیں گے۔ ‘‘

آج جب گزشتہ دس سالہ دور میں وطن عزیز اور قومی اداروں کی حالت، خصوصا اسٹیل مل کی حالت زار پر نظر پڑتی ہے ، اور ذہن تغلق صاحب کی پیش گوئیوں کی طرف جاتا ہے۔ ( جو حرف بہ حرف درست ثابت ہوئیں ۔ ) یعنی بونس تو دور کی بات تنخواہوں کے ہی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ گیس کی فراہمی منقطع کیے جانے کے بعد تین سال سے ادارہ ٹھپ پڑا ہوا ہے اور مقتدر حلقوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ، کہ اسٹیل مل جیسے منفرد ادارے کی بحالی اور ملازمین کے مسائل حل کے بارے میں کوئی حکمت عملی ترتیب دے سکیں۔

عام انتخابات کی آمد آمد ہے، صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے، کہ آئندہ عام انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت اپنے دور حکمرانی میں اسٹیل مل کے مسائل حل کرے اور تغلق صاحب کی جمہوریت اور ٹریڈ یونین کے حوالے سے پیش گوئیاں غلط ثابت ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).