۔۔۔شاید نہ بہار آئے


جب ذہن خالی ہو تو ایسی باتوں پر نظریں ٹہرجاتی ہیں۔

گھر سے باہر نکلنے کے خیال سے گھبراہٹ ہوتی ہے کہ گلی کے ہر کونے پر لوگ بڑھ کر ہاتھ ملائیں گے اور پوچھیں گے، آپ اس مرتبہ کس کو ووٹ دے رہے ہیں۔ اس سے زیادہ گھبراہٹ اس خیال سے ہوتی ہے کہ گلی کے کونے پر کوئی بھی نہیں ہوگا جو یہ سوال پوچھے گا، اس مرتبہ کی بے رونقی پر مجھے اور زیادہ کوفت ہوگی۔ گھر سے نکلوں تو کہاں جائوں، یہ سوچ کر میں ان دنوں زیادہ وقت بستر میں لیٹے لیٹے گزارتا ہوں۔ کتابیں جو پڑھنا ہیں، ان کا انبار بڑھتا جا رہا ہے مگر جیسے طبیعت میں سکون نہیں۔ ایک کتاب اٹھاتا ہوں، چند سطریں پڑھتا ہوں، پھر رکھ دیتا ہوں۔ ایک طرف فون رکھا ہے، اور ہاتھ کے قریب ٹی وی کا ریموٹ۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اس کو اٹھالیتا ہوں اور چینل بدلنے لگتا ہوں۔ قسط وار ڈرامے شاید زیادہ خراب ہوگئے ہیں اور ٹاک شوز میں ڈرامائیت آگئی ہے۔ ان سے گزر کر ان چینلز پر رک جاتا ہوں جن پر ہمارے محلّے والے کا کیبل والا اپنی مرضی کی فلمیں چلاتا رہتا ہے۔ کئی فلمیں جو اس طرح دیکھنے میں آدھی، ادھوری رہ گئی تھیں ان کو نئے سرے سے دوبارہ آدھا، ادھورا دیکھنے لگتا ہوں کہ شاید کہانی پوری ہو جائے۔ فلم ذرا دیر چلتی ہے پھر اشتہاروں کا وقفہ آجاتا ہے۔ اس وقت میں دوبارہ خبروں والے چینل کی طرف لپکتا ہوں مگر فلم کی کہانی نہ نکل جائے، اس خیال سے واپس آتا ہوں تو اشتہار اب بھی چل رہے ہیں۔ پہلے تو میں ان سے مُنھ موڑ لیتا تھا مگر کہاں تک؟ اشتہار بھی مانوس معلوم ہونے لگتے ہیں۔ دلہن بیوٹی پارلر اور اپنے خوابوں کا گھر حاصل کرنے کے فوراً بعد وہ اشتہار آتا ہے جو سیاہ اور سفید ہے، ایک تازہ دم نوجوان بول رہا ہے اور اس کی آنکھوں میں حوصلہ ہے، امید ہے۔ پھر اس کے الفاظ کانوں میں گونجنے لگتے ہیں۔

اور پھر۔۔۔ ارم لکھنوی کی غزل پر بوٹوں کی چاپ سپرامپوز ہو گئی

’’میرا نام فلاں ہے۔۔۔‘‘ وہ اس طرح بول رہا ہے کہ اس کے لہجے میں خلوص ہے، چہرے پر معصومیت۔ پھر وہ اپنے گھرانے کا ذکر کرکے اپنے ماں باپ کا نام لیتا ہے۔ میں چونک تو نہیں سکا لیکن ایک لمحے کے لیے رک گیا۔ بہت دنوں کے بعد کسی نے یہ نام لیے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے مگر بالکل نہ جانتے ہوں، ایسا بھی نہیں تھا۔ ان دونوں کا تعلق کراچی یونیورسٹی سے رہا اور وہاں میں نے ان کا نام سُنا تھا، دیکھا تھا۔ میں خود تو کراچی یونیورسٹی کا باقاعدہ طالب علم نہیں رہا لیکن کتنے بہت سے چہرے اس وجہ سے مانوس ہوگئے۔ میرے زمانے کے لوگ۔ میرے نہیں تو میرے دوستوں کے دوست۔ یونیورسٹی سے نکل کر ان کو عملی زندگی میں قدم رکھتے دیکھا، ملازمت، فکری اور سیاسی وابستگی، کام۔۔۔ اچھا، اب ان کا دفتر فلاں جگہ پر ہے اور وہ رہتے اس طرف ہیں۔ پھر دکھ بیماری کی خبریں، موت کے سائے۔۔۔ صاحب پہلے چلے گئے، خاتون ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے بعد میں۔ اب ان کا نام ایک سڑک پر درج ہے جہاں سے میں گزرتا ہوں تو اس طرف دیکھتا ہوں اور ایک عجیب سا احساس ہوتا ہے جسے میں کسی اور کو نہیں سمجھا جا سکتا، اس روشن چہرے والے نوجوان کو بھی نہیں جو ان کا نام لے کر آگے بڑھ گیا ہے اور اپنے ارادے بتا رہا ہے۔۔۔

ڈاکٹر اسلم فرخی

چیخے چلّائے اور اچھلے کودے بغیر وہ بہت ڈھنگ سے بات کرتا ہے۔۔۔ فلم میں ابھی دیر ہوگی، میں اس کی باتیں سننے لگتا ہوں۔ وہ اپنے منصوبے بتا رہا ہے، اپنے ارادوں کا ذکر کررہا ہے۔ اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے، وہ ہمیں بتاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی بڑی کوسٹ لائن سے نوازا ہے۔۔ یہ کیا کہہ رہا ہے، میں حیران ہوتا ہے۔ کہیں ڈی ایچ اے کے حکام نے سُن لیا تو توپ دم کرا دیں گے۔ زمین خدا کی، ملک کمپنی بہادر کا۔۔۔ ساحل پر ہر طرف بورڈ تو ان کے لگے ہوئے ہیں۔ کراچی کے عوام کے لیے تحفہ، وہ کہتے ہیں۔ مگر یہ اب کیا کہہ رہا ہے۔ کراچی کے سب سے بڑے مسئلے کا آسان حل ڈی سیلینیشن پلانٹ (de-salenation) ہے، وہ اسی خلوص سے بتاتا ہے۔ کمال ہے، ہمیں اب تک اتنی سی بات معلوم نہ ہوسکی تھی۔ میں کامیاب ہو کر اس کے لیے کوشش کروں گا، اس کی باتوں میں کتنا خلوص ہے۔ وہ شاید پہلی بار الیکشن لڑرہا ہے، اس کے کیریئر کا آغاز ہے اس لیے آغاز محبّت کی سی کیفیت ہے۔ دنیا اسے یقیناً پہلی بار اس کیفیت میں نظر آرہی ہوگی۔ اس کی گفتگو سے شائبہ بھی نہیں ہوتا کہ اس سے پہلے اسمبلی میں کچھ لوگ آئے ہوں گے اور ان کے سامنے ایسے مسائل رہے ہوں گے۔ انھوں نے کیا تیر مارا، ان کی طرف سے کوئی جواب دہی لازم نہیں ہے؟

اب آپ نئے سرے سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ اچھا بھئی، وہ بھی دیکھا تھا اور یہ بھی سُن رہے ہیں۔ وہ اسی لہجے میں بات جاری رکھتا ہے۔ اب وہ مستقبل کا خواب دکھا رہا ہے۔ ہر گھر میں پانی آنے لگے گا، بوڑھے، بچّے سب پانی کو ’’انجوائے‘‘ کریں گے، وہ کہتا ہے۔ میں یہیں رک جاتا ہوں۔ ریموٹ کی طرف بڑھتا ہوا میرا ہاتھ رک جاتا ہے۔ پانی بھی ’’انجوائے‘‘ کرنے کی چیز بن گیا جس طرح ٹی وی کے اشتہاروں میں اس لفظ کا کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے کہ اس سے خواہ مخواہ چڑ ہوگئی ہے۔ وہ یہ کیوں نہیں کہہ سکتا کہ پانی بنیادی ضرورت ہے، پانی انسان کا حق ہے۔ وہ ٹی وی کے اشتہاروں کی زبان کیوں بولتا ہے، ضرورت اور حق کی زبان کیوں نہیں بول سکتا؟ کیا اس کی ذہنی تربیت اور سیاسی ورثے میں ضرورت اور حق کا تصوّر واضح نہیں ہے؟

اگر یہ تصوّر موجود نہیں ہے تو پھر بہت دیر ہوگئی۔ اشتہار ختم کی طرف بڑھتا ہے، ایک سیاسی جماعت کے رنگ سیاہ اور سفید اسکرین پر ابھر آتے ہیں اور وہ فلاں نشان پر الیکشن کے دن مہر لگانے کے لیے زور دیتا ہے۔ سیاسی جماعت کے رنگوں سے میرا ذہن پھر بکھر جاتا ہے۔۔۔ اتنی بار یہ ہدایت، ہر آدھے گھنٹے کے بعد چلنے والا یہ اشتہار۔۔۔ اس کا خرچہ کہاں سے آتا ہے؟ دوسرے ایسے امیدواروں کی طرح اس کو بھی کوئی فائننسر فراہم کیا گیا ہو جو یقین دلائے کہ ابھی ہم بل ادا کیے دیتے ہیں، جیتنے کے بعد تم کو ٹھیکے دلوائے جائیں گے اس وقت ہمارا خیال رکھنا۔ یہ ڈاکٹر فائوسٹ کا سا معاہدہ میں نے ایک نہیں، اس مرتبہ ایک سے زیادہ لوگوں سے سنا۔ میں اس قسم کی باتوں پر کان نہ دھرتا مگر اس قسم کے خرچے کہاں سے پورے ہوں گے۔ اوپر سے پانی کے یہ وعدے۔۔۔ پانی کا مسئلہ تو میرے گھر میں بھی ہے اور میں محلّے کے لائن مین کے وعدوں پر بھی اعتبار کرلیتا ہوں جب وہ پانی کھولنے کے لیے کہتا ہے۔ اس نوجوان وکیل کو اپنے حلقے کے لوگوں سے مختلف سلوک کرنا چاہیے لیکن اتنے اچھے اور عمدہ طریقے سے بنے ہوئے اشتہار کو دیکھ کر میرا دل بیٹھنے لگتا ہے۔

استاد ارم لکھنوی

بے دھیانی میں ٹیلی فون اٹھا لیتا ہوں۔ فیس بک پر پھر وہی صفحہ کھل جاتا ہے جس پر ایک خوش ذوق کرم فرما پرانے شاعروں کا کلام ان کی آواز میں سنوائے جاتے ہیں۔ صدیوں کے فاصلے سے ارم لکھنوی کی متّرنم آواز گونج اٹھتی ہے__

رنگ ان کے تلوّن کا چھایا رہا محفل پر

کچھ سینہ فگار اٹھے، کچھ سینہ فگار آئے

اور مطلعے کا وہ شعر جو میرے والد دہرایا کرتے تھے__

 ہم باغ تمنّا میں دن اپنے گزار آئے

آئی نہ بہار آخر شاید نہ بہار آئے

شاید نہ بہار آئے، میں زیرلب دُہرانے لگتا ہوں۔ پھر خیال آتا ہے اب فلم شروع ہونے والی ہے۔ مجھے چینل بدلنے کی ضرورت بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).