مستونگ میرا شہر ہے اور میں دہشت گرد نہیں ہوں


میرا خیال ہے کہ بات شروع کرنے سے پہلے مجھے آپ کو مستونگ کے جغرافیے کے بارے میں بتانا چاہئے۔ کیونکہ بدقسمتی سے آپ کے یہاں اکثریت کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ”کوئٹہ بلوچستان میں ہے یا بلوچستان کوئٹہ میں“۔ ہاں البتہ کچھ ریئل اسٹیٹ ایجنٹس کی آواز اور سی پیک کا شور جہاں جہاں تک پہنچا ہے، وہاں لوگ تھوڑا بہت گوادر کے بارے میں ضرور جانتے ہیں۔ کم و بیش ڈھائی لاکھ کی آبادی اور ساڑھے پانچ ہزار مربع کلومیٹرپر پھیلی ضلع مستونگ کی سرحدیں ایک جانب کوئٹہ سے ملتی ہیں، دوسری جانب بولان سے، تیسری جانب قلات سے، اور چوتھی جانب خاران سے۔ اب یہ قلات، خاران اور بولان کیا ہیں؟ مستونگ سے ملحقہ ضلعے ہیں یا کوئی غیر ممالک۔ ان کی بھی تفصیل مجھے آپ کو بتانی پڑے گی اور بات بہت لمبی ہوجائے گی۔ اس لئے آپ لوگ محبت وطن ہونے کا ثبوت دے کر کرکٹ کے ٹی 20میچ میں ہونے والے ایک اوور کے جتنا ہی وقت نکال کر گوگل میپ آن کرکے پچھلے دنوں شہید ہونے والے اُن دو سو افراد کی عقیدت میں ہی مستونگ کا نقشہ دیکھ لیں، جو پچھلی ایک دہائی سے مذہبی منافرت کے نام پر کشت و خون کے بارے میں مشہور ہے۔ جس نے ہم سب ”مستونگیوں“ کو گلگت سے لے کر کراچی تک ہر جگہ مشکوک بنا دیا ہے۔ ہم جہاں کہیں کسی مقصد کے لئے اپنا شناختی کارڈ پیش کرتے ہیں، جس محفل میں اپنا تعارف کرواتے ہیں، جس ملازمت کے لئے انٹرویو دیتے ہیں یا جس تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے کے لئے پہنچتے ہیں، وہاں ہماری شناخت کے ساتھ مستونگ کا لفظ ہمیں مشکوک بنادیتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک سفر کے دوران مجھے ایک غیر ملکی سیاح کو بھی اپنی صفائی میں برجستہ طور پر یہ جملہ بولنا پڑا۔

I am from Mastung, but I am not a Terrorist

میں کیسے مذہبی منافرت اور دین کے نام پہ دہشت گردی کا مرتکب ہوسکتا ہوں، کہ میری پیدائش پہ پہلی آواز جو اذان کی صورت میں میرے کان میں پڑی تھی، وہ میرے نانا خوش محمد کی تھی۔ وہ نرم، ملائم اور میٹھی آواز جن کی روز مرہ کی گفتگو بھی امن، محبت اور انسانیت کا درس دینے والے رومی، جامی، اقبال اور شیرازی کے اشعار سے مزین ہوتی تھی۔ اور ہوش سنبھالنے کے بعد جو پہلی اذان میں نے سنی، وہ ملّا محمد حسین کی تھی، جو ہمارے گاﺅں کی کچی مسجد کے احاطے میں بنے ایک خاکی چبوترے پر کھڑے ہوکر اس اخلاص سے ”حی علی الصلوة“ پکارا کرتے تھے، جو بِنا لاﺅڈ اسپیکر کے بھی گاﺅں کے گلی کوچوں میں کسی خوشبو کی طرح پھیلتی ایک ایک گھر کے سوتے جاگتے مکین تک پہنچ جایا کرتی تھی۔ آپ چاہے مسجد کے پاس رہتے ہوں، یا گاﺅں کے آخری کونے میں، اُس لَے کی مٹھاس یکساں طور پر ہر کسی کے کان میں جیسے انفرادی طور پر سرگوشی کر رہی ہوتی تھی۔ وہ کسی مدرسے کے فارغ التحصیل عالم تھے، نہ باقاعدہ قرات کی تربیت لی تھی لیکن اپنے مقامی لہجے میں کلام پاک کی ایسی تلاوت کرتے تھے کہ پچھلی صفوں میں کھڑے مجھ جیسے شریر بچے بھی ایک دوسرے کو کہنیاں مارنا چھوڑ دیتے تھے۔

یہ میرا مستونگ تھا، سادہ، غریب اور روادار

ملّا محمد حسین نہ تو کسی سے چندہ لیتے تھے، نہ ہی سپارہ پڑھانے کے بعد وہ ہمارے ہاتھ میں برتن دے کر گھروں سے روٹی سالن مانگنے کے لئے بھجواتے تھے۔ ہاں البتہ کبھی کوئی اجنبی مہمان آتا تو اُس کے کھانے پینے کی ذمہ داری وہ کسی گھر پہ ڈال دیتے۔ ایک چھوٹی سی دکان سے اُن کی گزر اوقات ہوا کرتی تھی اور یہی دکان گاﺅں کے منچلوں کا ڈیرہ بھی تھی، جہاں جگت بازی کی محفلیں لگا کرتی تھیں، جن پر ملّا محمد حسین زیر لب مسکرایا کرتے تھے۔ اور کبھی کسی لغو بات پہ ڈانٹ دیا کرتے تھے۔ نوجوانوں کے بیچ میں ہونے والے تمام جھگڑوں کے فیصلے اُسی دکان میں ہوتے تھے۔ سال میں دو مرتبہ وہ بازار سے ہمیں مٹھائیاں لا کر بانٹتے تھے۔ ایک ہولی اور دوسری دیوالی کے موقع پر۔ یہ پرساد اُنہیں اُن ہندو بنیوں سے ملتا تھا، جہاں سے وہ اپنی دکان کا سودا سلف لیتے تھے۔ محرم کے دس دنوں میں دکان پہ ہر جگت، ہر ہنسی مذاق کی ممانعت تھی۔ فارسی زبان کے مرثیے پڑھتے ہوئے اُن کی آواز گلوگیر اور منچلوں کی آنکھیں بھر آتیں۔

مستونگ کی طرف بڑھتی ہوئی ریلوے لائن

باغوں سے پھل چرانا یا گھروں سے مرغیاں اور انڈے، اس سے زیادہ کوئی کچھ چرا لیتا تو اُسے سماجی طور پر نفرت اور دھتکار کا سامنا کرنا پڑتا۔ بڑی سے بڑی لڑائی میں بھی ڈنڈوں کا استعمال ہوتا۔ چاقو، آہنی مکے یا پھر خنجر رکھنے والا شخص تو باقاعدہ دہشت کی علامت ہوتا۔ رشتے کا معاملہ ہو یا علاقے میں شادی کی کوئی محفل یا ڈھول کی تھاپ پہ رقص کا دائرہ۔ وہ جہاں بھی جاتا، لوگ اُس کے پاس سے دور ہو جاتے۔ کسی کی جیب سے ایک زنگ آلود چاقو بھی نکلتا، تو ملّا محمد حسین اُسے کان سے پکڑ کر اُس کے باپ کے پاس لے جاتے۔ برسوں میں ایک آدھ قتل ہوتا جو برسوں تک یاد رکھا جاتا۔

یہ تھا میرے مستونگ کا ماحول۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ وہ من چلے جو کل محرم کے دنوں میں آپس میں دست و گریباں ہونے اور جگت بازیاں کرنے سے احتراز کرتے تھے، آج ہتھیار اٹھا کر شیعہ کے نام پر قتل کرتے ہیں؟ جو کل ایک چھری رکھنے پر زیر عتاب آجاتے تھے، وہ اچانک سے بندوق اٹھانے کی جرات کہاں سے لاسکتے ہیں؟ ملّا محمد حسین کی میٹھی اور مترنم اذان اور پرخلوص تلاوت کو پھلانگ کر کونسی آواز اُن کے کانوں تک پہنچی، جس نے انہیں دہشت گرد بنادیا ؟ وہ کونسی طاقت ہے، جس نے ان کے ہاتھوں سے بابو خوش محمد کی رومی، جامی، حافظ اور اقبال کی کتابیں چھین کر نفرت انگیز کتابچے پکڑا دیئے۔ کیا ملّا محمد حسین کے بجائے کوئی نیا ملّا آگیا ہے۔ یا پھر اُس مسجد میں کوئی اجنبی مہمان آ گیا ہے، جو گھروں سے کھانا اور بستر مانگنے کے بجائے اُنہیں کچھ بانٹنے لگا ہے۔

مستونگ کی بارونق گلیاں

ملا محمد حسین اور بابو خوش محمد صرف دو افراد نہیں تھے کہ جن کی موت کے بعد آوارگی اور بے راہ روی نے دہشت گردی کے دروازے کھول دیئے۔ یہ تو مستونگ کے مضبوط سماجی، مذہبی اور سیاسی رواداری کی دو علامات تھے، ان اقدار اور روایات کی علامات جن کو پروان چڑھانے میں بہت سے علما و مشائخ، سیاست دانوں، دانش وروں کی کاوشیں شامل ہیں۔

پچھلے دنوں جہاں مذہب کے نام پر لگ بھگ دو سو افراد شہید کئے گئے، اُس مقتل گاہ سے ذرا سے فاصلے پر پہاڑی کے دامن میں ایک بزرگ مولوی صاحب داد مشوانی کی قبر ہے۔ جو دارالعلوم دیو بند سے فارغ التحصیل ہو کر واپس آئے، تو دنیا داری سے قطع تعلق ہوکر آبادی سے دور ایک چھوٹی سی کٹیا بنا کر اُس میں رہنے لگے۔ جنہیں صاحب اختیار لوگوں کے خلاف قید و بند اور دیگر سختیاں برداشت کرنی پڑیں۔ لیکن یہ سچائی پہ ڈٹے رہے۔

اس دھماکے کی آواز یقینا مولانا محمد عمر کی آخری آرام گاہ تک بھی پہنچی ہوگی،جو دارالعلوم دیوبند سے دستار فضیلت باندھ کر آئے لیکن زندگی بھر ننگے سر، ننگے پاﺅں حرمت انساں اور خدمت انسانیت کے لئے سرگرداں رہے۔ سیاسی سمجھ بوجھ کا عالم یہ تھا کہ ابوالکلام آزاد اُن سے صلاح مشورے کے لئے خطوط لکھتے تھے۔

اس دھماکے کی لرزش یقینا مولانا عبدالخالق ابابکی کے حجرے تک بھی گئی ہوگی، جہاں زندگی بھر وہ مولانا روم کے ساتھ روحانی طور پر رازونیاز میں مصروف رہے، اور جب رخصت ہوئے تو اثاثے میں مثنوی و معنوی کا براہوی ترجمہ چھوڑ گئے۔ مولانا محمد صدیق، مولانا محمد افضل، مولانا عبدالعزیزاور نور محمد پروانہ جیسی شخصیات کی لحد تک بھی پہنچی ہوگی، جنہوں نے اپنی عمر رواداری اور انسان دوستی کی تدریس و تصنیف میں صرف کردی۔ جو منافرت پر مبنی تنظیمیں بنانے کے بجائے مختلف جرائد، اخبارات، ادبی اور تخلیقی کاموں میں مگن رہے۔ مجمعے لگانے کے بجائے وہ اپنے حجروں میں ہی علمی مباحث کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ ممبروں اور محرابوں پر اختلاف رائے کی جنگ چھیڑنے کے بجائے ایک دوسرے کو خطوط لکھ کر قائل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ جن کی وجہ سے فقہی اختلافات نے کبھی منافرت کی شکل اختیار نہیں کی۔ اور تو اور مستونگ میں بسنے والے دوسرے مذاہب خصوصاً ہندوﺅں کو مذہب کے نام پر کوئی گالی بھی دیتا تو اُس کو باقاعدہ سماجی پیشیاں بھگتنی پڑتیں۔

ان دھماکوں کی گونج سے شیخ واصل اور شیخ تقی بابا جیسے بزرگان دین کے مزاروں پر بیٹھے کبوتر بھی سہم گئے ہوں گے۔ جن کے گنبد نسل، قوم اور مذہب سے بالاتر ہوکر ہر کسی کو سایہ شفقت مہیا کرتے ہیں۔

اُن لاشوں پر رونے والوں کی آہ و بکا، اُن بیٹھکوں میں بھی چِلّا رہی ہو گی، جہاں کبھی یوسف عزیز مگسی، غوث بخش بزنجو، بابو عبدالکریم شورش، عبدالرحیم خواجہ خیل، بابوعبدالرحمان کرد، فیض محمد یوسف زئی اور غوث بخش رئیسانی کی سیاسی مجلسیں ہوا کرتی تھیں۔ جمہوریت جن کی سیاست کا ایمان تھا، اور پرامن جدوجہد جن کی سیاست کی عبادت تھی۔ یہ اُن ہی لوگوں کی برکت ہے کہ مستونگ میں کم و بیش 24سے 25 مختلف نسلوں اور زبانوں کے قبائل سینکڑوں برس سے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط سماجی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں، جو سخت سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود آج تک کمزور نہیں پڑے۔

ان دھماکوں کی بو یقینا پائلٹ سیکنڈری اسکول سے لے کر اسٹار پبلک اسکول تک اُن بیسیوں درسگاہوں تک بھی پھیلی ہوگی، جنہوں نے تعلیمی اعتبار سے مستونگ کو بلوچستان میں ایک ممتاز مقام دلوایا ہے۔

یہ ایک دھماکہ نہیں تھا۔ پچھلے کئی برسوں سے مستونگ والے ایسی کئی دھماکے سنتے آ رہے ہیں۔ ایسے کئی لرزہ خیز مناظر دیکھے ہیں، جب مذہب اور قومیت کے نام پر لوگوں کو قطار میں کھڑے کرکے گولیاں ماری گئیں۔ اور اُس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ قانون اور معاشرے کی نظر میں مشکوک بھی وہی ٹھہرائے جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سماجی، سیاسی اور مذہبی رواداری کے اس ماحول میں ایسے کونسے عوامل کارفرما ہیں جنہوں نے اس پرامن جگہ کو قتل گاہ بنادیا ہے۔

یہ سوال صرف میرا نہیں ہے، مستونگ کے ہر شہری کا ہے۔ یہ سوال نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کا بھی ہے، جنہوں نے اپنے بھائی سراج رئیسانی کی میت پہ کھڑے ہو  کر  Truth finding commissionکی صورت میں اُس کا جواب مانگا ہے تاکہ اس علاقے میں دراندازی کرنے والی قوتوں کو بے نقاب کیا جائے، جن کی وجہ سے مقتول بھی ہم ہیں اور مشکوک بھی ہم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).