شفاف انتخابات کی راہ میں واحد رکاوٹ: نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا


انتخاب کا دن قریب ہے۔ اس روز بیلٹ بکس کھلنے کے بعد جو فیصلہ سامنے آنے والا ہے، اس کے بارے میں اب کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان بائیس سال سیاسی جد و جہد کرنے کے بعد اب یہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم بننا ان کا حق ہے۔ اقتدار کے لئے کوشش کرنے والے ہر لیڈر کو یہ خواب دیکھنے کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن معاشرہ کو تبدیل کرنے، نیا سماج کھڑا کرنے کے لئے کام کرنے والے خواہ سیاست کے میدان میں ہوں یا صحافت یا کسی دوسرے شعبہ سے وابستہ ہوں، انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ انہیں معاملات طے کرنے کا اختیار دیا جائے۔ کیوںکہ معاشروں میں تبدیلی خواہ سماجی رویوں کے بارے میں ہو، معاشرتی عادتوں کو بدلنا مقصود ہو یا معاشی اور انتظامی ڈھانچہ کو بہتر بنانے کا قصد کیا جائے، اس کے لئے ایسی تحریک ضروری ہوتی ہے جو لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرسکے تاکہ ان کی مدد سے ملک و قوم کی ترقی اور بہتری کے سفر کا آغاز کیا جاسکے۔ عمران خان نیا پاکستان کا خواب دیکھتے ہوئے بدقسمتی سے دشت سیاست کے ایسے مسافر بن چکے ہیں جن کا مقصود صرف اقتدار کا حصول ہے اور اس مقصد کے لئے وہ ہر مفاہمت کرنے اور اصول کی قربانی دینے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ اسی لئے ہئیت مقتدرہ کی اعانت و تعاون بھی انہیں حاصل ہے اور انتخابات جیتنے کے لئے جس ’ساز و سامان ‘ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، وہ بھی انہیں مہیا کردیا گیا ہے۔

گو کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے الیکشن کمیشن کا دورہ کرتے ہوئے اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائیریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے اس بات کو دہرایا ہے کہ 25 جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں فوج کا اس کے سوا کوئی کردار نہیں ہو گا کہ وہ الیکشن کمیشن کی ہدایت اور رہنمائی کے مطابق حفاظت کے نقطہ نظر سے فوج کی مجموعی نفری کا نصف پولنگ اسٹیشنوں کی نگرانی اور حفاظت کے لئے فراہم کرے گی۔ بظاہر اس بات پر شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئے لیکن پاکستان کے انتخابی ماحول میں شبہات کی تہہ اتنی دبیز ہوچکی ہے کہ انتخاب جیتنے کے یقین میں مبتلا عمران خان بھی اب ملک کے ان بیشتر لیڈروں میں شامل ہوگئے ہیں جو انتخابات کی شفافیت اور منصفانہ انعقاد کے بارے میں شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ تاہم ان کا انداز مسلم لیگ (ن) کے خلائی مخلوق کے دعوؤں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے یکساں مواقع فراہم نہ کرنے کی شکایت کے مقابلے میں مختلف ہے۔

عمران خان نے خیبر پختون خوا کے نگران وزیر اعلیٰ دوست محمد پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں اور جمیعت علمائے اسلام کی حمایت کررہے ہیں۔ اس کے باوجود عمران خان نے یقین ظاہر کیا ہے کہ عوام اگلے بدھ کو بڑی تعداد میں گھروں سے نکلیں گے اور شفاف انتخابات کے خلاف سازشوں کو ناکام بنا دیں گے۔ یہاں یہ کہنے میں مضائقہ نہیں ہونا چائیے کہ عمران خان جب شفاف اور منصفانہ انتخاب کی بات کرتے ہیں تو ان کی مراد ایسے انتخابات سے ہوتی ہے جن میں پاکستان تحریک انصاف کو دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں واضح کامیابی حاصل ہو۔ کیوں کہ وہ ہر ایسے انتخابی نتیجہ کو مشکوک قرار دینے کے عادی ہوچکے ہیں جن میں ان کی پارٹی کو کامیابی حاصل نہ ہو۔

خیبر پختون خوا کے نگران وزیر اعلیٰ پر اسی عادت کے تحت الزام عائد کرتے ہوئے عمران خان نے جس شبہ کا اظہار کیا ہے، اس کی روشنی میں انہیں یقین ہونا چاہئے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے ’عناد‘ رکھنے والے حسن عسکری کی حکومت تحریک انصاف کی کامیابی کے لئے راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو گی۔ اگر اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے کہ نگران حکومتیں انتخابات کے من پسند نتائج حاصل کرنے کی قدرت رکھتی ہیں پھر تو عمران خان کی پریشانی دور ہوجانی چاہئے کیوں کہ اس وقت ملک کے وزیر اعظم کے عہدے پر ایک ایسے سابق چیف جسٹس فائز ہیں جنہیں ماضی میں عمران خان ’اپنا آدمی‘ قرار دے چکے ہیں لیکن وہ ان کی بڑھتی ہوئی خواہشات پر پورا اترنے میں ناکام رہے تھے۔

البتہ پروفیسر حسن عسکری نے 13 جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کی لندن سے واپسی کے موقع پر جس تندہی اور انتظامی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے اور جس طرح مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور لیڈروں کو گرفتار کرنے یا ان کے خلاف سیاسی مظاہرہ کرنے پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کروائے ہیں، اس کی روشنی میں تو ان کے ہوتے تحریک انصاف پنجاب میں تاریخی کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ عمران خان بھی جانتے ہیں کہ اگلے ہفتے منعقد ہونے والے انتخابات میں اصل معرکہ پنجاب میں برپا ہوگا۔ یوں بھی ایک مسکین پروفیسر کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنوانے کا احسان عظیم تحریک انصاف نے ہی کیا ہے، اس طرح حسن عسکری تو اس بوجھ کو ادا کرنے کے لئے بے چین ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ عمران خان 13 جولائی کو لاہور اور دیگر شہروں میں پنجاب حکومت کے ظلم کے خلاف ایک لفظی مذمت کرنے سے بھی قاصر رہے تھے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali