شفاف انتخابات کی راہ میں واحد رکاوٹ: نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا


اس کے باوجود یہ گمان کرنا زیادہ قرین از قیاس اور حقائق کے قریب ہو گا کہ نگران حکومتیں پولنگ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ انتظامی مشینری بے شک ان کے کنٹرول میں ہوتی ہے لیکن انتخابی عمل کی نگرانی براہ راست الیکشن کمیشن فوج کی مدد سے کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی گھاک بیورو کریسی تین ماہ کے لئے آنے والی حکومتوں کے قبضہ قدرت میں نہیں ہوتی بلکہ وہ ان اشاروں پر چلتی ہے جو اسے طاقت کے اصل مراکز سے موصول ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں یہ شکایت کررہی ہیں کہ اسٹبلشمنٹ نے تحریک انصاف کے ساتھ شیفتگی کا جو طریقہ اپنایا ہے، اس کی وجہ سے دیگر پارٹیوں کو انتخابی مہم چلانے اور اپنا پیغام ووٹروں تک پہنچانے کا مساوی موقع نہیں مل رہا۔ ان جماعتوں کو دہشت گردوں کی طرف سے بھی خدشات و خطرات لاحق ہیں لیکن سیاسی پیغام رسانی میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے سب سیاسی پارٹیوں کو بطور خاص مشکلات کا سامنا ہے۔ خاص طور سے مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اور اس کے لیڈروں کے خلاف بد عنوانی کے الزامات کو بنیادی نعرہ بنا کر جس طرح دیوار سے لگایا گیا ہے، وہ بہر صورت انتخاب سے پہلے انتخاب پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش ہی قرار دیا جائے گا۔

یہ حقیقت زبا ن زد عام ہونے کی وجہ سے ہی آرمی چیف کو انتخاب سے چھ روز پہلے فوج کی غیر جانبداری کی یقین دہانی کرنا پڑی ہے اور آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل ہفتہ عشرہ قبل پریس کانفرنس میں انتخابات میں فوج کے براہ راست کردار کو مسترد کرنے کے بعد اب سینیٹ کمیٹی کو بھی یہی یقین دہانی کروانے گئے ہیں۔ فوج کی قیادت کو احساس ہونا چاہئے کہ ایک خود مختار، طاقتور اور قومی ادارے کو کیوں اپنی غیر جانبداری کا بار بار اعلان کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے شبہات پیدا ہونے کی آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ یہ شبہات ملکی سیاست میں فوج کے کردار کے حوالے سے پیدا ہوتے ہیں۔ فوج نے کسی بھی سطح پر نہ تو خود کو سیاست سے مکمل علیحدہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ اسی لئے اب پوری قوم اگلے بدھ کو ہونے والے انتخابات کے بارے میں شبہات کا اظہار کررہی ہے اور مبصر بتارہے ہیں کہ طاقت کے مراکز کن سیاسی پارٹیوں کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اور اس کا انتخابی نتائج پر کیا اثر مرتب ہوگا۔ لیکن فوج کی قیادت یہ یقین دلوا رہی ہے کہ انتخابات منصفانہ بھی ہوں گے اور شفاف بھی۔

پری پول رگنگ کا تعلق صرف موسمی سیاست دانوں کی اقتدار کی طرف پرواز تک محدود نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس اڑان کا اہتمام کون کرتا ہے ۔ جدید ٹیکنیکل انتظامات کے تحت ہونے والے انتخابات پر اثر انداز ہونے کا یہ ایک ایسا راستہ ہے جسے 25 جولائی سے کئی ماہ پہلے اختیار کر لیا گیا تھا۔ اس کا دوسرا طریقہ مخالف سیاسی قوت کو کمزور اور بے اعتبار کرنا ہوتا ہے۔ یہ انتظام ایک سال پہلے شروع کردیا گیا تھا اور اب نواز شریف اور مریم نواز کی قید کو بنیاد بنا کر اور ان کے ناموں کے ساتھ مجرم کا لاحقہ لگاتے ہوئے خبروں کی ترسیل کی صورت میں یہ کام زیادہ شدت سے کیا جا رہا ہے۔

پنجاب کے نگران وزیر داخلہ شوکت جاوید نے گزشتہ روز نواز شریف کی جیل میں صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ کسی کو جیل سے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ایسے کسی بھی شخص کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ اگرچہ وزیر داخلہ نے اس سخت کارروائی کی تفصیل نہیں بتائی لیکن انہیں یہ وضاحت ضرور کرنی چاہئے تھی کہ اگر نواز شریف کو جیل سے سیاست کرنے کی اجازت نہیں ہے تو ان کا نام لے کر اپنی سیاست چمکانے والوں کے بارے میں ان کی فعال حکومت کیا اقدام کرے گی۔ لیکن انہیں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کیوں کہ پری پول رگنگ کے لئے جو ہتھکنڈے اختیار کئے جاتے ہیں، ان میں مخالف سیاسی لیڈروں کی کردار کشی بنیادی ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہے۔

عمران خان پانچ برس کے دوران مکمل طور سے یہ کام کرنے میں ناکام رہے تھے۔ لیکن نواز شریف سے عاجز آئے ہوئے عناصر نے گزشتہ ایک برس کے دوران بدرجہ اتم اس ادھورے کام کو مکمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاناما کیس، اس کے تحت نااہلی، نیب کے مقدمات اور پھر انتخابات سے پہلے فیصلہ کا اعلان اور نواز شریف کو واپس نہ آنے کے پیغامات بھیجنے کا سلسلہ، اسی منصوبہ کے بال و پر ہیں جسے عرف عام میں انتخابات سے پہلے انتخاب پر اثر انداز ہونے کے ہتھکنڈوں کا نام دیا جاتا ہے۔

ملک بھر کے میڈیا کو انتخاب سے چند ہفتے پہلے سے ’وزیر اعظم عمران خان‘ کا ڈھنڈورا پیٹنے کا قومی فریضہ سونپا جا چکا ہے۔ پے در پے سروے، پر جوش مباحث، ماہر تجزیہ نگار، سیاسی اتار چڑھاؤ پر گہری نگاہ رکھنے والے سینئر صحافی اور تجربہ کار مبصر بیک زبان یہ پیش گوئی کررہے ہیں کہ عمران خان ملک کے نئے وزیر اعظم ہوں گے۔ پیش گوئیاں غلط بھی ہو سکتی ہیں لیکن دست شناسوں کو ہاتھ دکھانے کی نفسیات سمجھنے والے جانتے ہوں گے کہ اس قسم کی خوشگوار پیش گوئیاں انتخابات میں ووٹ دینے کے رویہ پر کیا اثر مرتب کرسکتی ہیں۔ ان انتظامات کے بعد بھی اگر فوج شفاف انتخابات کی ضامن ہے اور عمران خان کو خیبر پختون خوا کے سوا ہر جگہ سے منصفانہ انتخاب کی خبریں موصول ہورہی ہیں تو ان پر شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali