چیف صاحب کے مخملیں خواب میں عام انتخابات کا پیوند


کیسا رومان پرور ماحول ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ٹھنڈے میٹھے چشمے کے قریب آنکھیں موندھ کر لیٹے ہیں اور ایک انتہائی سہانا خواب دیکھنے کی مسرت سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔ جی تو چاہتا ہے کہ کبھی آنکھ کھلے اور نہ ہی یہ حسین خواب ختم ہو۔ ملک کے اہم ترین ادارے مکمل ہم آہنگی اور پوری یکسوئی کے ملک کو درپیش سنگین ترین مسائل کو حل کرنے کی فکر میں غلطاں ہیں۔ گذشتہ دس برسوں میں بدعنوان سیاسی رہنماوں کو تو لوٹ مار سے ہی فرصت نہ مل سکی کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کر سکیں کہ مستقبل قریب میں یہ ملک پانی جیسی انمول نعمت کے بحران کا شکار ہونے والا ہے اور اس کے لیے ڈیموں کی تعمیر وقت کا کتنا اہم تقاضا ہے۔ حد تو یہ کہ ان سے پہلے محب وطن اور بہادر کمانڈو نے بھی اپنے نو سالہ دور اقتدار کے دوران اس ضمن میں کوئی سنجیدہ رویہ اختیار کرنے سے اجتناب ہی برتا۔ خیر اتنا پیچھا جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کا صد شکر ہے کہ نگران حکومت آتے ہی عزت مآب چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس ناگہانی افتاد سے نمٹنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے اور الحمداللہ اتنے گھمبیر معاملے پر ہمارے محافظوں کا جذبہ ایثار اور تعاون بھی مثالی ہے۔

 محترم چیف جسٹس کی بس دو ہی خواہشات تو ہیں ایک ڈیموں کی تعمیر اور دوسری پاکستان کے ذمے واجب الادا غیرملکی قرضوں کی ادائیگی۔ لیکن ہائے افسوس چیف صاحب کی مدت ملازمت اور ان دو اہم ترین مسائل کے حل کے لیے درکار وقت کے درمیان ایک وسیع و عریض خلا حائل ہے۔ کاش کچھ ایسا ہو جائے کہ پلک جھپکنے میں یہ فاصلے سمٹ جائیں اور مختصر ترین وقت میں یہ کار ہائے نمایاں سرانجام پا سکیں کیونکہ نہ جانے پھر کبھی ہمیں ایسا درد دل رکھنے والے چیف صاحب میسر بھی آ سکیں یا نہیں۔حضرت اقبال نے تو بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ “بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔”

 اور ویسے بھی کیا پتہ کہ پھر کب ایسا سماں ہو جب ادارے اتنی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے اہم قومی مسئلے پر توجہ صرف کرنے کے قابل ہو سکیں۔ خواتین و حضرات! آپ سے بھی مودبانہ گذارش ہے کہ اپنی تمام تر توجہ اس سنگین مسئلے پر مرتکز رکھیں۔ پانی کا بحران شدید ترین خشک سالی اور قحط کا موجب بن سکتا ہے۔ اس لیے اس سے نمٹنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ازحد ضروری ہے۔ خدا لگتی کہئے گا کیا اتنا گھمبیر معاملہ نئی منتخب شدہ حکومت کے سر پر ڈالا جا سکتا ہے۔ بیچاری نو منتخب حکومت کیسے اپنے ناتواں کندھوں پر اتنا بڑا بوجھ اٹھا پائے گی۔ یقینا وہ یہ بھاری پتھر چوم کر رکھنے میں ہی عافیت سمجھے گی۔ اسی ممکنہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمارے محترم چیف نے اتنی اہم ذمہ داری اپنے مضبوط کندھوں پر اٹھانے کا ارادہ باندھا ہے اور ہماری عسکری قیادت بھی اس قومی فریضے کو سر انجام دینے کے لیے تن من دھن سے ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ مملکت خداداد میں کیسا سنہری دور چل رہا ہے۔ ڈاکٹروں کی سرزنش برابر جاری ہے۔ پاگل خانوں کی حالت بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے از خود نوٹسز لیے جا رہے ہیں۔ سر عام سائلوں کی شنوائی ہو رہی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ طاقتور ترین شخص کو پس زنداں دھکیل کر کڑے احتساب کی داغ بیل ڈال دی گئی ہے۔ ذرا چہار سو اڑتی دھول بیٹھ لینے دیجئے۔ یہ بڑے بڑے سرمایہ دار (ملک ریاض اچھا آدمی ہے) اور یہ تمام کرپٹ سیاستدان (عمران خان کو سپریم کورٹ صادق وامین قرار دے چکی ہے) بلا امتیاز احتساب کا سامنا کر رہے ہوں گے۔ ان سب بدعنوانوں سے لوٹی ہوئی رقم خزانے میں واپس لائی جائے گی۔ ایون فیلڈ فلیٹس تو پہلے کی پاکستان کی ملکیت بن چکے ہیں۔ ان کی نیلامی سے بھی خاطر خواہ آمدن متوقع ہے اور پھر الیکٹرونک میڈیا پر سپریم کورٹ کے ایما پر چندے کے لیے اشتہاری مہم بھی تو چل رہی ہے۔ لوگ عدلیہ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے دھڑا دھڑ چندہ دے رہے ہیں۔

سوشل میڈیا ماہرین کے مطابق اورنج ٹرین پر دوسو ارب کی خطیر رقم خرچ کی گئی ہے جبکہ ڈیم کے لیے بقول شخصے فقط بیس ارب روپے ہی درکار ہیں۔ (حالانکہ ڈان اخبار والے خرم حسین اس بابت اپنی حالیہ تحریر میں ہوشربا انکشافات کر چکے ہیں۔) تو سامنے کی بات یہ ہے کہ اتنی معمولی رقم محض چند ہی دنوں میں جمع ہونے کے امکانات روشن نظر آ رہے ہیں۔ یکن اس عاقبت نااندیش بے سمت ہجوم کو کون سمجھائے جو ایسے پہاڑ جیسے قومی مسائل کے ممکنہ حل سے صرف نظر کرتے ہوئے انتخابات میں دلچسپی لے رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایسے رہنما منتخب ہوں گے جو نہ تو اتنی بصیرت کے حامل ہیں کہ ایسے معاملات پر اتفاق رائے قائم کر سکین اور نہ ہی ایسے کردار کے مالک ہیں کہ اتنے بڑے منصوبے کی ذمہ داری آنکھیں بند کر کے ان کے سپرد کر دی جاے۔ سو اے ناشکری قوم ہوش کے ناخن لو انتخابات تو ہر پانچ سال بعد سر پر آن کھڑے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).