اماں کی چپل


ویسے تو ہر علاقے میں اس علاقے کے لحاظ سے چپل ہوا کرتی ہے لیکن ایک چپل جس کو کچھ لوگ ہوائی چپل تو کچھ قینچی جوتی بھی کہتے ہیں تقریبا ہر علاقے میں پائی اور کھائی جاتی تھی۔ اس کا رنگ کالا اور نیچے میز رنر کی گیم جیسا نقشہ بنا ہوتا تھا۔ میری عمر کے تقریبا ہر بزرگ نے اپنے بچپن میں یہ چپل ضرور چکھی ہوگی۔ کیوں کہ اس وقت کی اماں حضور یہ چپل استعمال کم اور کھلاتی زیادہ تھیں۔ اگر اس کے ذائقے کی بات کریں تو یہ جتنے منہ اتنی باتوں جیسا ہی ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا ذائقہ ہوتا ہے۔ چوں کہ میں نے کھائی ہوئی ہیں تو میں اس کے ذائقے کے بارے اتنا ہی کہوں گا کہ اس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور اتنا کڑوا کہ اس کا ایک چمچ ہماری میٹھی میٹھی شرارتوں سے بھری پلیٹ میں کڑواہٹ گھولنے کے لیے کافی ہوا کرتا تھا۔

کڑواہٹ کے بارے اس دور کے حکیموں کا کہنا تھا کہ کڑوی چیز کے کھانے سے خون صاف ہو جاتا ہے۔ شاید اسی لیے ہماری اماں ہم کو ہمارے بچپن میں خارش کے خاتمے کے لیے صافی (ایک کڑوا شربت جو کہ خارش کی دوائی کے طور پہ استعمال کیا جاتا تھا) کا ایک چمچ مع چپل دیا کرتی تھیں۔ ان دو کے مکسچر کی وجہ پوچھتے تو ازلوں سے چارپائی پہ لیٹے ہمارے دادا حضور ہمیں بتاتے کہ پتر صافی شربت خون کو تر و تازہ رکھتا ہے اور چپل جسم کو۔

ان کے علاوہ اگر ہم اماں کی چپل کے مزید فوائد کا تذکرہ کریں تو اس میں اول الذکر فائدہ ہمیں یہ ہوتا تھا کہ چھٹیوں کے بعد جب ہم اسکول واپس جاتے تو ہمارے پاس اسکول کی چھٹیوں کا کام مکمل ہوا کرتا تھا۔ رات کے کھانے میں اگر بینگن یا ٹینڈے بھی پکے ہوتے تو ہم ایسے خوشی خوشی کھاتے جیسے کہ گوشت یا کھیر کھاتے ہیں۔ اور تیسرا یہ کہ ہماری بہن اماں کی اس چپل کی بدولت ہماری شرارتوں سے ٘محفوظ ہو جایا کرتی تھی۔

چپل میں ہیری پوٹر کی چھڑی سے زیادہ جادو ہوا کرتا تھا، کیوں کہ جب ہماری اماں حضور دور سے پنجابی کے منتر تنتر پڑھ کر ہماری طرف پھینکتیں اور جب ہمیں لگتی تو ہمارے ہنستے مسکراتے چہرے کے تاثرات اور جائے مضروبہ کے خد و خال یکسر بدل جایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ہماری اماں اپنی طلسمی چپل سے ہمارے سب داغ صاف کیا کرتی تھیں۔ ہمیں آج بھی یاد ہے جب ایک دفعہ ہم اپنے سفید کاٹن کے سوٹ میں نمک آلود جامن (چوری شدہ) ڈال کر دوستوں کے ساتھ غپا غپ کر کے گھر لوٹے تو پھر میں جانتا ہوں یا میرا اللہ کے اماں نے صابن و سرف استعمال کیے بنا، قمیص پہ لگے وہ جامن کے داغ کیسے صاف کیے تھے۔

نخرے بازی یا کوئی شرارت کرنے کا سوچتے تو آنکھیں سیدھا اماں کے پیروں کی طرف جاتیں اور جب اس بات کی تسلی ہو جاتی کہ اماں ننگے پاوں ہے تو کر لیتے، اور اگر پاوں میں یا قریب پڑی ہو تو شرارت کے بعد والے معاملے کی منظر کشی کر کے اس شرارت سے توبہ کر لیتے۔ ہاں البتہ جب ہم اپنے ننھیال ہوتے تو اس وقت اماں کے پیروں میں چپل کی جگہ ایک نئی جوتی ہوا کرتی تھی، جس کے ٹوٹنے کا اماں کو ہر وقت خدشہ لگا رہتا تھا اور اماں کے اس خدشے کا ہم بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے۔ چھٹیوں کے ختم ہو جانے کے بعد کلاس روم میں بیٹھ کر اپنے ان دوستوں کو ننھیال میں کی گئی شرارتوں کے قصے مزے لے لے کر ضرور سناتے تھے، جو کہ ہمیں اماں کا ڈمرو کہہ کر بلاتے تھے۔ اس طعنے کا غصہ تو بہت آتا تھا لیکن پھر ہم یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے کہ چلو اچھا ہے ان کو یہ نہیں پتا کہ اصل ڈمرو ہے کون، ورنہ سوچو ہمارے ابا حضور پہ کیا بیتتی۔

تھوڑے بڑے ہوئے تو برادر ملک چائنا نے ہمارے مسئلے کو بھانپتے ہوئے ایک ایسی چپل تیار کی کہ جس میں جادو بالکل بھی نہ تھا۔ اگر تھا بھی تو اس کا اثر الٹا اماں کے بازووں پہ ہوتا تھا۔ وقت بدلا، تعلیم بڑھتی گئی، بچے سیانے ہو گئے تو انھوں نے ماوں کو ممی کے روپ میں دھار کر ان کے ہاتھوں سے چپل چھین کر اسی سائز کا موبائل تھما دیا ہے اور پاوں میں سینڈل ڈال دی ہے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اسی وجہ سے تو آج کل یہ بات مشہور ہے کہ کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ حالاں کہ پہلے وقتوں میں کامیاب مرد کے پیچھے اماں کی چپل ہوا کرتی تھی۔ بقول بقلم خود شاعر کہ۔

چپل اماں کی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی بچوں کی پھر تقدیر دیکھی

سیٹھ وسیم طارق
Latest posts by سیٹھ وسیم طارق (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).