سانحہ مستونگ اور میڈیا


اس وطن میں دہشت گرد کس نے پالے کون ان دہشت گردوں کی سرپرستی کرتا ہے، کیسے کمر توڑنے کے باوجود لنگڑا کر چلنے والے دہشت گرد عوام کی کمر پر ایسا پاوں رکھتے ہیں کہ عوام کی ہڈیاں چٹخنے لگتی ہیں۔ کیسے دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے والے بلند بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ان تمام سوالات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم اداروں کو داد دیتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کی کمر توڑنے میں دن رات اپنا لہو بہا رہے ہیں۔ ہم ان علما کرام سے بھی سوال نہیں کرتے کہ دہشت گردوں کے کتے بھی شہید کہنے والے سانحہ مستونگ کے مظلوموں پر کیوں چپ ہیں۔

ہم ایسے علما کو بھی سلام پیش کرتے ہیں کہ اپنی الیکشن کمپین میں اتحاد بین المسلمین کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف بھی دبے الفاظ میں کھل کر بولتے ہیں۔ ہم ان مفتیان سے بھی کچھ نہیں پوچھیں گے کہ کئی فتوے دینے کے باوجود کہ دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ الگ بات ہے کہ ان کی اصطلاح میں دہشت گرد کون ہیں۔ ہم ایسے سوالات پوچھ کر کسی کو ہرگز زحمت نہیں دینا چاہتے۔ ہاں مگر ہم میڈیا سے ضرور پوچھیں گے جسے ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے ایسے ستون سے کا سایہ عوام کو میسر کیوں نہیں؟ ہاں ہم ضرور سوال کریں گے۔

یہ وہی میڈیا ہے ناں، جو کتوں کی موت پر مکمل رپورٹ تیار کرتا ہے یہ وہی میڈیا ہے نا جو گدھوں کے زخمی ہونے پر باقاعدہ دکھ کا اظہار کرنے کے لیے رپورٹ بناتا ہے مگر افسوس کہ یہی میڈیا مستونگ سانحے میں شہدا کے لواحقین کی حالتِ زار پر ترس نہیں کھاتا، نا ہی ان زخمیوں کے کراہنے کی آواز سنائی دیتی ہے جو مستونگ دھماکے میں شدید زخمی ہوئے اور کوئٹہ کے سرکاری اسپتالوں میں درد سے کراہتے رہے۔ کہیں بیڈ کی قلت نے زخمیوں کو مزید بسمل کیا، تو کہیں ادویات کی عدمِ دستیابی کی وجہ سے زخمیوں کے اہلِ خانہ تڑپتے رہے۔

کہیں ان شہدا کے لواحقین جن کے پانچ پانچ بچے اس دھماکے میں لقمہ اجل بن گئے انھیں اپنوں کی میتیں گھر لے جانے کے لیے ایمبولینس دستیاب نہ ہوسکیں۔ کہیں کفنانے کے لیے رقم نہ تھی تو کہیں دفنانے کے لیے زمین نہ مل سکی۔ اس قیامت کی گھڑی میں بھی جہاں پورا ملک اے پی ایس سانحے کی طرح اپنے بلوچ بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہو جاتا، کوئی زخمیوں کے مفت علاج کے لیے اعلان کر رہا ہوتا تو کوئی ملالہ یوسفزئی کی طرح زخمیوں کو باہر ملک علاج کے لیے بھیجتا، مگر افسوس کہ بلوچستان والے بھول گئے کہ یہ تو بلوچستان ہے۔

اس مشکل وقت میں جہاں میڈیا اپنے کیمروں کا رخ مستونگ بلوچستان کی طرف کرتا اور عامتہ الناس کو پَل پَل کی خبر سے آگاہ کرکے انھیں اپنے زخمی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے شعور دیتا ان شہدا کے لواحقین کی آواز ملک کے کونے کونے میں پہنچاتا؛ مگر بدقسمتی سے یہ بدبخت و بکاو میڈیا نواز شریف اور مریم نواز جو کرپشن کے کیس میں عدالت سے سزا یافتہ مجرم تھے، ان کی ادائیں عوام کو دکھاتا رہا۔ وہاں مریم صاحبہ کی شاپنگ سے لے کر اس کی مسکراہٹ اور افسردگی تک ہر ہر ادا کو لائیو نشر کرتا رہا۔ جب کہ مستونگ میں گوشت کے لوتھڑے بھر بھر کر دفنانے والے بھی میڈیا کی اہمیت حاصل نہ کر سکے۔

تبھی تو میڈیا کے اس جانب دارانہ رویے کی بنا پر پورے بلوچستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ چکی ہے۔ جب لوگوں نے سوشل میڈیا پر دھماکے کی تفصیلات بتانا شروع کیں تو اکثریت یہی پوچھتی رہی کہ مستونگ میں ہوا کیا ہے؟ ویسے تو بلوچستان اور بلوچستان کے باسی ماضی میں بھی ہر اعتبار سے نظر انداز کیے جاتے رہے ہیں مگر اس بار نواب زادہ شہید سراج رئیسانی تو محبِ وطن تھا۔ وہ اپنے جلسے جلوسوں میں بھی پاکستان کے پرچم لے کر پھرتا تھا۔ بلوچستان کی عوام سے ووٹ بھی اس سبز ہلالی پرچم کے نام پر مانگتا تھا۔ سرِعام اور ڈنکے کی چوٹ پر بھارت کو للکارتا بھی تھا۔ اپنے گھر، گاڑی اور سینے کو ہمیشہ سبز ہلالی پرچم سے سجائے رکھتا تھا۔ پھر کیا وجہ تھی کہ میڈیا نے اس محب وطن پاکستانی کو بھی یک سر نظرانداز کردیا؟

کیا صرف یہی وجہ نہ تھی کہ مستونگ دھماکے میں شہید ہونے والا سراج رئیسانی اور دیگر کسی پس ماندہ صوبے سے تعلق رکھنے والے مٹھی بھر بلوچ تھے۔ یا پھر میڈیا والے یہاں بھی ڈالرز کے چکر میں تھے، جو بے چارے غریب بلوچ نہ دے سکے اور میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہے۔

میڈیا کے اس جانب دارانہ رویے کو دیکھتے ہوئے بلوچستان کے نوجوانوں نے میڈیا نیوز چینلز کا بہت دنوں سے بائیکاٹ کر رکھا ہے اور یہ بائیکاٹ غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ صرف ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک گدھا زخمی ہونے پر میڈیا کی توجہ کا مرکز تو بن سکتا ہے مگر مستونگ دھماکے میں سینکڑوں کی تعداد میں شہید ہونے والے بلوچ اور کئی گھر اجڑ جانے کے باوجود میڈیا کے لیے اہمیت کا حامل نہ بن سکے۔ آخر کب تک بلوچستان والوں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہے گا؟ کون ہے اس سب کا ذمہ دار؟

ابھی تو کوئٹہ سول اسپتال میں شہید ہونے والے وکلا کے زخم بھی اچھی طرح نہیں بھرے تھے، کہ ایک مرتبہ پھر بلوچستان کے باسیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بلوچستان ایک مرتبہ پھر جل کر راکھ ہوگیا۔ کوئی تو بولے کوئی تو ہمت کرے آخر کوئی تو بلوچستان کے باسیوں کے سوالات کے جوابات دے؛ تمھاری خاموشی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).