کیا مشینی انسان برتر اخلاقیات کا حامل ہو گا؟


انسانی ذہن کو جو سبقت ارتقائی سفر میں نصیب ہوئی اس کو اختصار سے بیان کیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ تکرار پر مبنی نمونوں کو پڑھنے سمجھنے اور پھر پیش گوئی کی صلاحیت نے اس کو باقی انواع کی نسبت کہیں آگے لا کھڑا کیا۔ حسی اعضاء سے دماغ میں جانے والی کوئی بھی تحریک مختصر دورانیے کی یاداشت میں جا پہنچتی ہے ۔ وہاں سے طویل مدتی یاداشت میں اسی سے ملتے جلتے نمونوں کی مدد سے انسان میں ردعمل دینے اور ‘سیکھنے’ کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ نمونہ جات مختلف طرز کے جذبات کا محرک بن جاتے ہیں۔ حسی اعضاء کو جانے والی مختصر تحریک چند لمحوں بعد ‘عمل ‘ کی صورت میں نتیجہ لے آتی ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت اس قدر ترقی کر جائے گی کہ ‘مشینی انسان’ احساسات کا حامل ہو جائے گا تو تکنیکی اعتبار سے کچھ غلط نہیں کہتے۔ ‘مشینی انسان ‘ کو اس تک پہنچنے میں کتنی دیر لگے گی ، اس بات کو حتمیت کے ساتھ بتانے میں بھی ابھی کافی دیر ہے۔

انسانی ذہن جبکہ نمونوں کو بہتر جانچنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو پھر کیونکر اخلاقی زوال کا شکار ہو جاتا ہے؟

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دماغ کا قدیم حصہ نہ صرف مکمل طور پر متحرک ہے بلکہ طاقتور بھی ہے۔ کسی بھی تحریکی اشارے کی صورت دو امکان پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اشارہ مختصر دورانیے کی یاداشت میں گیا اور وہاں سے طویل مدتی یاداشت کی مدد سے نمونہ بنایا۔ اب اس نمونے کو دیکھ کر قدیم دماغ (جذبات کا مرکز اسی کا حصہ ہے) نے ردعمل دیا۔ میرا خیال ہے ہمیں اس دماغ کو انتہائی ترقی یافتہ دماغ کہنا چاہیے۔(ٹاپ ڈاؤن پراسیس)

سوال پیدا ہوتا ہے کیا یہ ترقی یافتہ دماغ بطور مثال، ہمارے آس پاس موجود ہے؟ شاید نہیں۔ اس مقام تک پہنچنے میں وقت درکار ہے۔ اجتماعی شعور ترقی کرتا کرتا راستہ ہموار کرے گا۔ ہم میں سے ہر ایک کی زندگی کا سفر کچھ اس طور شروع ہوتا ہے کہ زندگی کے ابتدائی چند سال ذات سراپا جذبات ہوتی ہے یعنی قدیم دماغ مکمل حاوی ہوتا ہے۔ عقل لاکھوں نمونوں کا مطالعہ کرتے کرتےاگر نمونوں کو بہتر پڑھنے کی صلاحیت حاصل کر بھی لے تو زندگی کی سہہ پہر ہو چکی ہوتی ہے۔ اسی سہہ پہرسے شام تک کی زندگی میں کیا حاصل وصول اگر تقسیم کیا جانے لگے تو وہ اجتماعی شعور کو مہمیز دیتا ہے ۔ ابتدائی سفر سست سہی لیکن ایک خاص مقام پر ضارب کا اثر رفتار کو کہیں تیز کر سکتا ہے۔

دوسرا امکان یہ ہے کہ تحریکی اشارہ مختصر مدت کی یاداشت میں گیا اور ساتھ ہی جذبات کے مرکز نے فوری ردعمل دے کر معاملہ ادھورا کر دیا۔ جذبات کا یہ مرکز ایسا کیوں کرتا ہے اور کن لوگوں میں کرتا ہے؟ سیاسی تناظر میں ایسی ریاست جس کی بقا اپنے شہریوں میں دشمن کا خوف پھیلانے میں مضمر ہو یا کم از کم اس ریاست میں طاقت کا محور مرکز یہی سمجھتا ہو ، یا جہاں مذہبی احکام کے پیچھے ڈھیر ساری خوف پر مبنی کہانیاں ہوں وہاں پلنے والے دماغ کا قدیمی حصہ زیادہ حساس ہو جاتا ہے۔ دماغ کا یہ قدیمی حصہ ان سیاسی ثقافتی و مذہبی کہانیوں کو زندگی کی بقا اور تسلسل کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ جب بھی زندگی کی بقا اور تسلسل کا مرحلہ درپیش ہو تو اس قدیم دماغ کی میکانیت کی بنیاد ایسی ہے کہ معاملہ بقا پر کسی سمجھوتے کی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ اس بات سے قطعا کوئی فرق نہیں پڑتا کسی دماغ میں عقل کا گھر یعنی کاگنیشن کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو۔

کمزور اخلاقیات اسی دوسرے امکان کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جب نمونہ جات پڑھنے کی صلاحیت کمزور ہو اور قدیم دماغ میں جذبات کا مرکز بوجہ حساسیت بار بار دخل اندازی کرے تو عقل کو مکمل ‘نمونہ ‘ دیکھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ آپ کو اب یہ سمجھنے میں دقت پیش نہیں آنی چاہیے کہ کیوں سڑک پر خود سگنل توڑنے والا دوسروں کے بارے میں خواہش رکھتا ہے کہ سب سگنل کی پاسداری کریں۔ البتہ جب وہ کسی کو سگنل توڑتے دیکھتا ہے تو کلیجہ تھام لیتا ہے اورغصے اور بے بسی سے اس مایوسی کا اظہار کرتا ہے کہ اس ملک کو کوئی ٹھیک نہیں کر سکتا اور اس قوم کا سدھرنا ناممکن امر ہےوغیرہ وغیرہ

مشینی انسان ، حسابی شمارسے یقیناً بہتر اخلاقیات کا حامل ہو سکتا ہے۔ انہی نمونہ جات کو دیکھ وہ ‘محسوس’ بھی کرے گا۔ ‘جذبات ‘ کا بھی حامل ہو گا۔ ایک حیاتیاتی دماغ سے یقیننا مختلف ہو گا لیکن سیکھنے کی صلاحیت اس میں کہیں زیادہ ہو گی۔ بنیادی لاکھوں نمونہ جات فیڈ کرنے کے بعد ضارب کا اثر اس کو مختصر وقت میں کہیں کا کہیں پہنچا دے گا۔ دقت یہ ہے کہ اگر حیاتیاتی دماغ نے اس کی بنیادوں میں ارادتا کچھ غلط نمونوں کو “درست بنا کر” بنیاد رکھ دی تو یہیں مشینی انسان خباثت کی نئی بلندیوں پر ہو گا۔

کالم کی دم: مضمون بھیجنے لگا تو یاد آیا ایک معاملہ کاذب نمونوں کا بھی ہے جیسے چاند میں کوئی شبیہ یا بادلوں کی بناوٹ سے دکھائی دیتا کوئی مقدس نام وغیرہ۔اس کے علاوہ متفرقات سے غلط نمونے بنا لینے کی صلاحیت نے بھی بڑے ظلم ڈھائے ہیں۔ ذرا دماغ پر زور ڈالیے

(اس مختصر مضمون کا بنیادی خیال سوشل میڈیا کے متحرک قلمکار عزیر سالار کی ایک فیس بک پوسٹ سے لیا گیا)

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik