مولوی صاحب! میں جاہل ہی رہنا پسند کروں گا۔۔


میں غریب کا بچہ ہوں، اُس غریب کا جس کے پاس تن ڈھانپنے کو کپڑے نہیں ہیں۔ وہ دو وقت کی روٹی کے لیے بھٹے کی تپش کو برداشت کر جاتا ہے۔

مولوی صاحب! اس ماں کا بچہ ہوں، جو لوگوں کے برتن مانجھتی ہے تاکہ میرے کپڑے صاف رکھ سکے۔ لوگوں کا کھانا پکاتی ہے تاکہ مجھے لقمہ دے سکے۔

ایک گندے، میلے، کچیلے گھر میں رہتا ہوں، بچہ ہوں، ماں اور باپ کا لاڈلا ہوں لیکن ان کی ہزار کوشش کے باوجود بھی میری خواہشیں پوری نہیں کرسکتے۔ بچہ ہوں، لاڈ کرتا ہوں، روتا ہوں، وہ کوشش کرتے ہیں ان کے چہروں پر غربت کی بدبختی دیکھ کر چُپ ہوجاتا ہوں۔

اے مولوی صاحب آپ تو استاد ہیں، آپ کے پاس تو دین سیکھنے کے لیے ماں باپ نے اس لیے بھیج دیا۔ بیٹا دنیا میں تو غربت نصیب میں لکھی ہے کہ اب یوں نہ کیا جائے کہ بس آخرت کے لیے ہی اولاد تیار کر دی جائے، شاید وہاں جا کے سکون حاصل ہو اور رزق کی فراوانی ہو۔

سنا تھا کہ بچے تو پھولوں کی طرح خوبصورت اور فرشتوں کا روپ میں ہو تے ہیں جو اپنے چہرے کی طر ح دل کے خوبصورت اور من کے سچے ہو تے ہیں ان کی معصو میت ہی ہے۔ آپ نے جب چاہا، کپڑے اتارے اور ہمارے پھولوں جیسے جسم کو مسل دیا، ہمارے فرشتوں جیسی روح کو داغدار کردیا پھر بھی ہم خاموش ہو کر فرشتے رہے۔

سنا تھا کہ پتھر سے پتھر دل والا انسان بھی معصوم چہرے کو دیکھ کر موم بن جا تا ہے مگر آپ شیطانی ہوس پر رہے۔ آپ نے بھیک منگوائی تو در در جا کر بھیک مانگ کر آیا، آپ کو کھانا کھلوایا، آپ کو چندہ جمع کر کے دیا۔ آپ پھر بھی سکون نہ پا سکے اور نہ دینا چاہا۔

اے مولوی صاحب! آپ تو محمد رسول اللہ کے عظیم اُمتی اور خیر خواہ اسلام تھے۔ آپ نے رسول اللہ کا اخلاق نہیں پڑھا، کیا آپ کو رسول اللہ کا درس انسانیت یاد نہیں رہا، کیا آپ کو محمد رسول اللہ کا بچوں سے پیار، محبت کرنا نہیں سکھایا گیا کہ وہ کیسے حسن و حسین کو جھولا جھولاتے تھے، یتیموں، مسکینوں غریبوں کا آسرا و سہارا تھے۔ آپ کون سے اُمتی ہیں۔

مولوی صحب آپ کے پاس قرآن سیکھنے آیا، لیکن آپ نے عربی ہی پڑھائے رکھی۔ سیکھنے میں صرف نفرت، مسلک تعصب اور غصہ سکھایا۔ میرا قرآن سیکھنا رہ گیا اور میں بھی مولوی بن جاؤں گا، آپ کی طرح کا ظالم، وحشی اور درندہ۔۔۔

 ۔مولوی صاحب اگر پڑھ لکھ کر آپ کی طرح کا مجھے عالم بنایا جا رہا ہے تو مجھے جاہل ہی رہنے دیں۔۔

مولوی صاحب میرا قصور کیا تھا کہ میں ایک غریب، نادار، بے آسرا اور ایک مزدور کا بیٹا تھا۔ سوچا کوئی آئسکریم کھا لوں، شربت پی لوں گا۔ سوچا کہ خدا کے گھر کے باہر خدا کے بندوں کے دیے گئے چند روپے لے لوں۔ ہیں تو اُسی رب کے جس نے مجھے اور آپ کو پیدا کیا ہے۔ اسی ڈبے سے اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا اس خدا کے گھر پر آپ کا ٹھیکہ ہے، آپ تو نیک ہیں، آپ کو دنیا میں بھی ٹھیکہ دیا گیا ہے اور آخرت کی جنت جہنم کے فیصلے بھی تو آپ سنا رہے ہوتے ہیں۔

اے مولوی صاحب اس معصوم جسم کو زخمی کرتے ہوئے ترس نہ آیا، بچوں کی پرندوں کی طرح چیختی آواز سن کر رحم پیدا نہ ہوا۔ مجھے شک ہے کہ وہ شیطان آپ ہی ہیں جس کے بارے آپ بتاتے رہے ہیں۔۔۔۔ مجھے آپ سے دین نہیں سیکھنا، میں جاہل رہنا پسند کروں گا۔ میں مزدوری کروں گا، کپڑے دھوؤں گا، برتن صاف کروں گا۔ اپنے بابا کے ساتھ تپتے سورج کی آنچ میں کام کروں گا، ماں کی آغوش میں رہ کر لوگوں کے برتن صاف کروں گا۔ مولوی صاحب! مجھے جاہل ہی رہنے دیں۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).