ملکی ترقی کے لئے اعلیٰ تعلیم کی اہمیت اور الیکشن


جب سے ہوش سنبھالا ہے ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ ہم ایک نازک دور سے گزر ر ہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملکی حالات بد سے بدتر ہوتے جا ر ہے ہیں۔ میرا تعلق اسی نسل سے ہے جو قیامِ پاکستان کے چند سالوں بعد پیدا ہوئی۔ پاکستان بنتے ہوئے دیکھا تو نہیں مگر جن لوگوں نے پاکستان بنایا، ان کی باتیں اور کارنامے سننے کو خوب مِلے۔ یہ واقعات حب الوطنی کے ایک مضبوط جذبے کو ابھارتے رہے۔ اس طرح اس ملک سے محبت اور وابستگی کے احساسات خون کی روانی میں شامل ہوگئے۔ آج کل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر قوت پاکستان کے وجود یا اس میں بسنے والے لوگوں کی ترقی اور خوشخالی کی دشمن ہوگئی ہے۔ اس صورتِ حال کے زیرِ اثر لوگوں کی ایک بڑی تعداد پرکشش زندگی کی تلاش میں ترقی یافتہ ملکوں کا رُخ کر رہی ہے

کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ ایسی صورتِ حال کیوں پیش آئی۔ وہ کیا ایسی بات تھی کہ ترقی کی جانب گامزن قوم بھٹک گئی اور انتشار کا شکار ہوگئی اور ایک لحاظ سے ہم دوسروں کے آلۂ کاربن گئے۔ بیرونی استحصالی قوتیں ہم پر حاوی ہوگئیں اور ہم اپنے ہی ملک میں صفائی ستھرائی کے روزمرہ اور بنیادی کاموں کے لیے بھی غیر ملکی کمپنیوں کے محتاج ہوگئے ہیں۔ ہمارے مسائل اتنے گھمبیر ہوسکتے تھے کبھی سوچابھی نہیں تھا۔ ایسے وسائل اور خزانے جو ہمیں قدرت نے وافر مقدار میں مہیا کر رکھے ہیں وہ بھی ایسا لگتا ہے کہ ہماری دسترس میں نہیں ر ہے۔ جیسے آبی، زرعی، معدنی، انسانی اور قدرتی وغیرہ۔ ہم ہر معاملے میں دوسرے ملکوں کے محتاج ہوکے رہ گئے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہوا ہے؟

اس کا جواب اگر چہ اتنا آسان نہیں ہے مگر میری ناقص رائے کے مطابق مُلک کی قیادت ان لوگوں کے ہاتھوں میں رہی ہے جو تکنیکی اور صلاحیتی اعتبار سے انتہائی نا اہل بلکہ بد عنوانی کا شکار ہیں۔ اُن کی ساری توجہ اس طرف مرکوز رہی ہے کہ کس طرح بیرونی قرضہ حاصل کرکے بڑے تعمیراتی منصوبے مکمل کرکے دولت بیرونِ ملک اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے۔ اس کے نتیجے میں ملک کے مستقبل کو مکمل طورپر نظر انداز بلکہ تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کردیا گیا۔

پچھلے چند سالوں میں اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کس طرح دولت کمانے کے نت نئے طریقے ایجاد ہوئے ہیں۔ ان چیدہ چیدہ طریقوں میں سے ایک نمایاں شعبہ تعلیم سے متعلق ہے۔ کسی زمانے میں نجی شعبہ میں نہ ہونے کے برابر سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہوا کرتی تھیں اورسرکاری کے ادارے ہی تعلیم کے فروغ اور ترویج پر فائز دکھائی دیتے تھے۔ مگر اب اس شعبے کے مالک سیاستدان اور پراپرٹی ڈیلربن گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے نشریاتی اور صحافتی ادارے بھی قائم کر لیے ہیں تاکہ پراپیگنڈہ اور سیاسی اجارہ داری بھی قائم کی جاسکی اور کسی فرد یا گروہ کی جرات نہ ہوسکے کہ ان اداروں کی تعلیمی بد حالی اور بدعنوانیوں پر انگلی اٹھاسکے۔ مزید برآں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر کوئی متبادل قیادت یا نجات دہندہ نظر آتا ہے تو اس شخصیت کو بھی اتنا متنازعہ بنادیا جاتا ہے کہ وہ کوئی واضح قوت حاصل نہیں کر پاتا۔

اتنی لمبی تمہید باندھنے کے بعد جس بنیادی بات میں آپ کو شریک کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارہ میڈیا بلا تکان ہر وقت سیاستدانوں کی بداعمالیوں اور ان کی سیاہ کاریوں کی نشاندہی میں لگارہتا ہے۔ اس میں کتنا سچ ہے یا جھوٹ ہے اس کا فیصلہ ہونا نا ممکن ہے اور اس کا تعین اگر ہوبھی جائے تو پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑنا کیونکہ اگر آپ کسی کو پسند کرتے ہیں اور عدالت اس کو مجرم بھی ٹھہرادے، آپ اس کو کسی کی سازش یا نانصافی قراردے سکتے ہیں اور ماننے سے انکار کردیں تو کوئی آپ کا کیا کرسکتا ہے میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی فضول بحث میں ہم ایک نہایت اہم ضرورت کو فراموش کر چکے ہیں۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ماضی میں کسی بھی حکومت نے صدقِ دل سے اہم قومی مسائل پر بات کرنا اور اس کا حل نکالنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس وقت ہمارے اہم قومی مسائل کیا ہے۔ اگر ان کا شمار کیا جانے لگے تو ایک طویل فہرست تیار ہوجائے گی۔ سب سے اہم مسائل کا تعلق تعلیم، صحت، روزگار، توانائی اور پانی کی فراہمی سے متعلق ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم دہشت گردی اور بیرونی قرضوں کے خوفناک مسائل سے بھی دوچار ہیں۔ انہی کی بدولت اقوامِ عالم میں ذلیل وخوارہور ہے ہیں۔ آج سے چند سال پہلے جہاں پاکستانی پاسپورٹ کی بنیادپر ہم آزادانہ دوسرے ملکوں میں آجا سکتے تھے آج انہی ملکوں کے دروازے تقریباً بند ہوچکے ہیں اور ہم اپنا قومی وقار کھوچکے ہیں۔

کسی بھی ملک کو کو ئی بھی گھمیر مسئلہ درپیش ہو جیسے زرعی پیداوار میں کمی، توانائی کا بحران، ماحولیاتی آلودگی، نا گہانی اموات، فصلوں پر کیڑے مکوڑوں کا حملہ وغیرہ ان سب کا حل ایک اعلیٰ تعلیمی نظام فراہم کرتا ہے۔ یعنی اگر اس کا تعلیمی نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جو نوجوانوں کو ایک معیاری اور جدیدتر تعلیم سے آراستہ کر رہا ہوتو یہ سب مسائل ملک کے اندر ہی حل ہوسکتے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارا ملک بہترین قدرتی وسائل سے آراستہ ہے۔ تقریباً ہر قسم کے معدنی ذخائر ملک میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ مگر ہم ان سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے میں ابھی تک اس لیے قاصر ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ور صلاحیتوں سے آراستہ افرادی قوت نہیں پیدا کر رہا۔

ہم فرسودہ نصاب کوابھی تک رائج کیے ہوئے ہیں اور اگر کچھ نوجوان ملک سے باہر اعلیٰ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوکر واپس آبھی جاتے ہیں تو یہاں کے فرسودہ نظامِ تعلیم کی بدولت وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنی حاصل کردہ صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ چونکہ ہماری ہر طرح کے عملی تجربات کا دارومدار بھی بیرون ملک سے منگوائے گئے آلات اور کیمیاوی مرکبات پرہی ہوتا ہے جن میں بہت سے پاکستان کے لیے ممنوعہ قرار بھی دیے جاتے ہیں، اس لیے بھی جتنی دیر میں اس کا انتظام ہو پاتا ہے اتنی دیر میں عالمی افق پر کوئی نئی ایجاد ودریافت منظرِ عام پر آجاتی ہے اور یوں بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے۔

اس ساری صورتِ حال سے تیزی سے نکلنے کا واحد حل اسی میں ہے کہ ایک ایسی باصلاحیت اور باشعور قیادت الیکشن کی بدولت منتخب ہو جو سائنس اور ٹیکنالوجی اور عملی فنون کی اہمیت کو سب سے زیادہ اہمیت دے اور سکول سے لے کر یونیورسٹیوں تک تعلیمی نظام کو مضبوط اورا علیٰ کرنے کے لیے صدقِ دل سے کوشاں ہو اور قومی بجٹ کا ایک مناسب حصہّ اس کے لیے بلا رکاوٹ لمبی مدت کے لیے مخصوص کرے اور ملک کی افرادی قوت کو سب سے زیادہ اہمیت دے تاکہ یہ ملک جدید تر اعلیٰ اور معیاری صلاحیتوں سے مزین افرادی قوت تسلسل سے پیدا کرتا ر ہے اور قومی مسائل کو مقامی طور پر ہی اپنی تحقیق اور علم کی بدولت حل کر سکے۔

اس گھمبیر صورتِ حال میں امید کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ ہمیں ایک بار پھر اپنے مستقبل کو سنوارنے کا موقع مل رہا ہے۔ الیکشن اب سر پر آگئے ہیں۔ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں میں نیا شعور اجاگر ہوگیا ہے اوروہ جان چکے ہیں کہ اس ملک کو بربادی سے مکمل طورپر بچانے کے لیے اچھے، قابل، ایماندار، محنتی اور بے لوث حکمرانوں کا ہونا بہت ضروری ہے جو اس ملک کی سب سے اہم متاع یعنی دس کروڑ نوجوانوں کے سرمایے کو بہترطورپر استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، ملک میں قانون اور علم کی حکمرانی قائم کر سکیں۔ کسی بھی قسم کی برائی اورلاقانونیت برداشت نہ کریں اور علم ودانش پر مبنی متّجسس معاشرے کی تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ووٹ دیتے وقت اپنے ذاتی مفادیا برادری سے بالا تر ہوکر صرف اور صرف ملکی مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ایسے لیڈر کومنتخب کریں جو ملک میں تعلیم کے میدان ایک مثبت تبدیلی لانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہو۔

پروفیسر سعادت انور صدیقی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پروفیسر سعادت انور صدیقی

پروفیسر ڈاکٹر سعادت انور صدیقی خوارزمی سائنس سوسائٹی کے صدر ہیں

saadat-anwar-siddiqui has 2 posts and counting.See all posts by saadat-anwar-siddiqui