عمران خان، معلق پارلیمنٹ اور آمریت کے پھندے میں لٹکتا پاکستان


یہ طریقہ ملک کی طاقت ور اسٹبلشمنٹ کی ضرورتوں کو بھی پورا کرتا رہا ہے، اسی لئے الیکٹ ایبلز اور اسٹبلشمنٹ ایک دوسرے کی ضرورت بن چکے ہیں۔ اس وقت ملک کے بیشتر تجزیہ نگار اگر تحریک انصاف کی کامیابی کی پیش گوئیاں کررہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ اسے جتوانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ یہ جائزے کسی اصول یا سیاسی پروگرام کے مقبول یا غیر مقبول ہونے کی بنیاد پر تیار نہیں ہوتے۔ اسی لئے ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کا خواب دیکھنے والے اس طریقہ کار کو مسترد کرتے ہیں اور اس کی تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں۔

وزیر اعظم کی کرسی کی طرف بڑھتے ہوئے عمران خان ملک کے سیاسی لیڈروں کے علاوہ ایسے لوگوں کے بارے میں بھی سنگین عناد کا اظہار کرتے رہے ہیں جو ان کی پارٹی کو کامیاب کروانے کی بجائے دوسری پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ وہ عوام کے مینڈیٹ کو قبول کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں اور صرف ان لوگوں کو قابل قدر اور انسا ن کے رتبے پر فائز سمجھتے ہیں جو ان کی پارٹی یا شخصیت سے متاثر ہیں ۔ باقی لوگوں کے بارے میں ان کی رائے وہی ہے جو انہوں نے گزشتہ جمعہ کو نواز شریف اور مریم نواز کی لاہور واپسی کے موقع پر ان کا استقبال کرنے والوں کے بارے میں دی تھی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے باز پرس پر عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے اس طرز تکلم اور انسانوں کے لئے ’گدھے‘ کا لفظ استعمال کرنے کو درست قرار دیا تھا۔ پانچ برس تک خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ رہنے والے پرویز خٹک نے پیپلز پارٹی کی حامیوں کے بارے میں جو بدکلامی کی ہے وہ بلاشبہ عمران خان کی سیاسی تربیت ہی کا شاخسانہ ہے۔ اسی لئے عمران خان یا پارٹی کی طرف سے اس گھٹیا طرز تکلم سے فاصلہ اختیار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

سیاسی لیڈروں اور عوام کے بارے میں یہ رائے رکھنے والے عمران خان ملک پر غیر آئینی طور سے حکومت کرنے والے فوجی آمروں کے بارے میں کبھی رائے زنی نہیں کرتے خواہ اس کا تعلق مالی بد عنوانی سے ہو یا یہ معاملہ ملکی آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جمہوری فلاح اور بہتری کا راستہ روکنے سے متعلق ہو۔ پاکستان میں جمہوریت کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کوئی سیاست دان یا مبصر اگر فوجی آمروں کے منفی کردار اور تباہ کن فیصلوں کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھتا تو اس کے بارے میں یہ سمجھنے کی غلطی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس ملک میں جمہوری نظام کی بہتری کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ البتہ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ذاتی اقتدار کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ عمران خان بھی وہی کر رہے ہیں۔

عمران خان نے اس مقصد کے لئے بلاشبہ ہر اصول کی قربانی دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں ہاتھ رنگنے کے بعد الیکٹ ایبلز کا بڑا ٹولہ تحریک انصاف میں پناہ گزین ہو چکا ہے۔ اور ان کی مدد و تعاون سے عمران خان ملک میں بدعنوانی کے مشن کو مکمل کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ یہ مضحکہ خیز صورت حال خود ہی مستقبل میں پیش آنے والے حالات کی آئینہ دار ہے۔ عمران خان نے اقتدار کے لئے عوام دشمن قوتوں سے سمجھوتہ کیا ہے۔ ان میں اسٹبلشمنٹ اور الیکٹ ایبل سر فہرست ہیں۔ اس سمجھوتہ کے بعد بھی اگر وہ وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو اس کا الزام وہ اپنے سوا کسی دوسرے کو نہیں دے سکیں گے۔ انہوں نے کبھی عوام کے شعور پر بھروسہ نہیں کیا اور نہ ہی عوام کے مینڈیٹ کو قبول کیا ہے کیوں کہ اس کے ذریعے وہ ابھی تک اقتدار سنبھالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ برسر اقتدار آنے کے بعد بھی وہ اپنے مد مقابل لیڈروں کو جیل بھیجنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔

حیرت ہے کہ وہ ملک کے جمہوری نظام کو کرپشن کا عنوان بنانے والے عناصر اور اداروں کے ساتھ تعاون کے بعد کس طرح بدعنوالی ختم کرنے کے مقصد میں کامیاب ہونے کا یقین کرسکتے ہیں۔ ملک کے عوام کو تو وہ بے شعور سمجھتے ہیں حالانکہ اس ملک کے عوام باشعور ہیں اور دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ملکوں کے لوگوں کے مقابلے میں حالات حاضرہ، سماجی و معاشی معاملات اور سیاسی اتار چڑھاؤ کی بہتر تفہیم رکھتے ہیں۔ لیکن استحصال کی مسلسل صورت حال نے انہیں ’سمجھوتے‘ کرنے پر مجبور ضرور کیا ہے جن میں الیکٹ ایبلز کو ووٹ دینا اور جس لیڈر کی ہوا بندھی ہو اس کی طرف جھکاؤ کا اظہار بھی شامل ہے۔ ملک کی سیاسی پارٹیاں اگر جمہوریت کے اس اسٹیٹس کو کو توڑنے کے لئے کام کریں تو یہی عوام بہترین لوگوں کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بی بی سی کو انٹریو دیتے ہوئے عمران خان نے معلق پارلیمنٹ کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ وہ بدعنوان پارٹیوں کے ساتھ اشتراک کر کے حکومت بنانے کی بجائے اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کریں گے۔ عمران خان کی پارٹی کو گزشتہ پانچ برس اپوزیشن میں بیٹھنے کا موقع ملا تھا۔ لیکن اس حیثیت میں وہ یا ان کی پارٹی کوئی مثبت جمہوری کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ برسر اقتدار آکر یا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ قوم کی خدمت کرنے کے لئے عمران خان کو سب سے پہلے عوام کے فہم و شعور پر یقین کرنا ہو گا ۔ اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جمہوریت میں لوگوں کے ووٹ لے کر پارلیمنٹ تک آنے والے سب ہی لوگ قابل احترام ہوتے ہیں۔ اگر ان میں کچھ ’چور‘ شامل ہیں تو ان کا تعین عمران خان کی پسند یا ناپسند سے نہیں ہو گا بلکہ ملک کا نظام قانون و انصاف ہی اس کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali