ووٹرز اور انتخابات


جمہوریت ایک طرز حکومت ہے اس میں
بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا

پچھلے ہفتے میں نے ایک پوسٹ فیس بک پر ڈالی کہ 2018کے جنرل الیکشن میں کسی کو ووٹ نہیں دوں گی جس پر مجھے ملے جلے ردعمل اور رائے کا سامنا کرنا پڑا ووٹ نہ دینا میرا انفرادی مسئلہ ہے۔ عوام کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے جائے گی تو اسی سلسلے میں آج ووٹنگ عوام کے لئے کچھ اہم معلومات لے کر حاضر خدمت ہوں۔ عوام ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں تو اسے سب سے پہلے اس بات کا علم ہونا لازمی ہے کہ سینٹ اور قومی اسمبلی کی کل کتنی نشستیں کس صوبے کے لئے مختص کی گئی ہیں۔

قومی اسمبلی:لیگل فریم ورک آرڈر 2002کے تحت قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد بڑھا کر 342کردی گئی ہیں ان میں 272عام نشستیں ہیں جن پر کوئی بھی امیدوار، قطع نظر عقیدے و جنس کے انتخابات کڑ سکتا ہے صوبوں کے حوالے سے نشستوں کی تقسیم درج ذیل ہے۔

قومی اسمبلی:

بلوچستان:14
کے پی کے:35
سندھ:61
پنجاب:148
فاٹا:12
وفاقی دارلحکومت:2
خواتین:60
غیر مسلم:10

سینٹ:
سینٹ میں نشستوں کی کل تعداد104ہے ہر صوبے کی سینٹ میں 14عام نشستیں، فاٹا کی 8، وفاقی دارلحکومت کی 2جبکہ سینٹ میں ہرصوبے سے ٹیکنو کریٹس جن میں علماء بھی شامل ہیں 4نشستیں، وفاقی دارلحکومت میں ٹیکنو کریٹس کی، 1وفاقی دارالحکومت میں خواتین کی 1سیٹ مختص کی گئی ہے 17سیٹس پر مسلم اور غیر مسلم انتخاب لڑ سکتی ہیں اب آتے ہیں کہ کن کن لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی آزادی ہے اور کون مجبوری کے تحت نہیں ڈال سکتے قیدیوں کی نمائندگی جمہوری نظم و نسق میں اس لئے کم ہے کہ ان کی نگرانی کے لئے الگ سے پولیس درکار ہو گی جبکہ الیکشن کے دن پولیس ہر جگہ تعینات ہوتی ہے

دوسرے قادیانی ہیں قادیانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جس کی بناء پر وہ احتجاجا انتخابات میں حصہ نہیں لیتے ان کے مقابلے میں تمام ووٹر ز کا اندراج ان کے عقیدے سے قطع نظر ہو کر ایک ہی فہرست میں کیا جاتا ہے اور یہ ترمیم 2002 میں کی گئی اہم بات 2003کے انتخابات میں خواجہ سراؤ ں کو شناخت چھپاکر ووٹ ڈالنے کی روایت کو ختم کردیا گیا عوام کو یہ جاننا ضروری ہے کہ انتخابات کی نگرانی کے لئے جو ریٹرننگ آفیسر ان کے حلقے میں تعینات کیا گیا ہے اس کا نام، قابلیت اور ای سی پی (الیکشن کمیشن آف پاکستان)میں کس گریٹ پر خدمات انجام دے رہا ہے

اس کے علاوہ ہر پریذائیڈنگ اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ کے حوالے سے بھی عوام کو آگاہی ہواگر کسی بھی حلقے کی عوام کو ووٹ کاسٹ میں مسئلہ ہے تو وہ 8300پر NICنمبر بھیج کر اندراج کی تصدیق کرا سکتا ہے ان تمام کے علاوہIDPsکا مسئلہ سب سے اہم ہے جو اپنے وطن کے شہری ہوتے ہوئے بھی انسانی و آئینی حقوق سے بھی محروم ہیں پولنگ اسٹیشنوں کا معائنہ کرناریٹرننگ افسر کے ذمہ ہے اگر عوام کو امیدوار یا کوئی سیاسی جماعت ووٹنگ کے لئے ذرائع نقل و حمل مہیا کرے تو یہ قانونی طور پر جرم ہے، انتخابی عمل میں کوئی رکاوٹ ڈالیں، بدامنی پیدا کریں تو پریذائیڈنگ افسر کو یہ اختیار ہے کہ وہ اس شخص کو پولنگ اسٹیشن سے باہر نکال دے

عوام جب ووٹ ڈالنے جائیں تو انہیں پتہ ہو کہ بیلٹ بکس مکمل طور پر بند ہو، پولنگ اسٹیشن پر ایک وقت میں دو بکس استعمال کیے جائیں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لئے!مزدوروں کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ ٹیکنو کریٹس ہر صوبے سے 4اور وفاق سے 1مخصوص ہے جس میں علماء بھی شامل ہیں جب کہ مزدور اور کسان ٹیکنو کریٹس سے ذیادہ محروم طبقہ ہے ان کو بھی نشست مہیا کی جائے تاکہ انصا ف کا بول بالا ہو اور عوام کا اسمبلیوں پر اعتماد پختہ ہو جائے ای سی پی پر ہمیشہ مردوں کا راج رہا ہے اس میں کم از کن ایک خاتون کو شامل کیا جائے جمہوریت اور انتخابات کے حوالے سے خواتین کا نقطہ نظر سمجھنے میں ای سی پی کو مدد مل سکے

نئے ووٹروں کے لئے آسانی:
آئین کے آرٹیکل 51اور 106میں ووٹ ڈالنے کی عمر 18سال مقرر کی گئی ہے جو ووٹرز پہلی بار رائے حق دہی استعمال کر رہے ہیں ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے ان کو اپنے علاقے کے حلقے میں جانا ہوگا وہاں پولنگ افسر کے سامنے ووٹر کو اپنا سی این آئی سی دکھانے کو کہا جائے گا افسر اس ووٹر کا نام لسٹ سے خارج کر دے گا اس کے دونوں انگھوٹوں میں سے ایک پر سیاہی لگائی جائے گی پھر پریذائیڈنگ افسر اس کا نمبر انتخابی فہرست اور شناختی کارڈ نمبر بیلٹ پیپر کی رسید پر (جو پھاڑ کر اپنے پاس رکھ لیتا ہے) درج کرتا ہے اور بیلٹ پیپر ووٹر کے حوالے کر دیتا ہے اس کے بعد ووٹر کو راز داری سے بیلٹ پیپر پر نشان لگانا چاہیے اور اسے تہہ کر کے بیلٹ باکس میں ڈال دینا چاہیے

انتخابی حلقو ں کی نئی حد بندیوں کا ایک ایکٹ مجریہ 1974کے متعلق عوام کو علم و اگاہی ہونا لازمی ہے جوکہ چیف ایگزیکٹیو کے عام انتخابات کے حکم مجریہ 2002کے تحت عمل میں آیا اس کے علاوہ انتخابی فہرستوں کا ایکٹ 1974، انتخابی فہرستوں کے ضوابط 1974کے مطابق بھی عوام کو چیدہ چیدہ معلومات ہونا ضروری ہے ان تمام باتوں کے علاوہ ای سی پی نے تمام سیاسی جماعتوں اور امیدوارں کے لئے ایک ضابطہ اخلاق مرتب دیا ہے اور اس پر سختی سے عمل کی تاکید کی گئی ہے یہ کچھ و چند باتیں تھی جن کا ہر ووٹر کو علم، آگاہی اور شعور ہونا لازمی ہے۔
(یہ آرٹیکل بنانے میں کچھ معلومات جمہوریت کے استحکام کی جانب پیش رفت HRCP2013 aprilسے مدد لی گئی ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).