برطانیہ ہم سے سیکھے


انسانی ارتقاء سے لے کرآج تک دنیا میں اجتماعی نظم یا نظام حکومت کے صرف چند طریقے ہی رہے ہیں الہام کے ذریعے ودیعت کردہ اقتداریا قیادت یعنی پیغمبری یہ وہ طریقہ ہے جس میں انسان کی رہنمائی کا فریضہ خالق کائنات کی جانب سے کسی کو سونپا گیا ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغمبر اسی طریق پرنائب اللہ فی الارض کے منصب پرفائز ہوئے۔

دوسرا طریقہ طاقت کے ذریعے قبضے کا ہے یہ طریقہ بھی ازل سے ہے اس میں انسان اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کی انسانی وفطری امنگوں کی نفی کرتے ہوئے اس کیحرمت پامال کرتا ہے اوراسے زیرکرنے کے بعد اپنی مرضی کے مطابق چلانے پرقادرہوبیٹھتا ہے جنگوں اورفتوحات کے ذریعے مفتوحہ علاقوں میں بسنے والے انسانوں سے غیرانسانی سلوک اسی کی تمثیل ہے

تیسرا طریق باہمی مشاورت یا رائے سے کسی کو اپنا رہنما، رہبریا قائد منتخب کرنے کا ہے جس میں اجتماعی نظم کی بنیاد اجتماعی شعورپرہوتی ہے انسانی ارتقاء کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ طریقہ تمدنی ارتقاء کے بعد وجود پذیرہوا اورفی زمانہ اسے دنیا میں بہترین نظام حکومت مانا جاتا ہے۔ انسانی شعوراورمنطق کوپیش نظررکھا جائے توپہلا طریق یعنی پیغمبری نبی آخرالزماں ﷺ کے بعداختتام پذیرہوا اب اللہ کی جانب سے کسی کو اس منصب پرفائزکرنے کا راستہ بند ہوگیا۔

طاقت کے ذریعے علاقوں پرقبضے اورانسانی غلامی کا رواج بھی بیسیویں صدی کے اوائل سے ہی اپنے انجام کو پہنچا۔ جنگوں اورفتوحات کا سلسلہ تو رکا ہے نہ رکے گا لیکن تہذیبی ارتقاء نے اسے انسانوں کو زیرکرنے کے بجائے علاقوں کو زیرکرنے تک محدود ضرور کردیا ہے ۔

بادشاہت اور آمرانہ نظام کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے تاہم دنیا کی بیشترآبادی اب اسے مستردکرچکی ہے عالمی اجتماعی نظم یعنی انٹرنیشنل برادری میں بھی اسے اب قدرکی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ جائزہ لیں تو اس وقت دنیا کے 55 فیصد ممالک میں صدارتی جمہوریت، 34 فیصد میں پارلیمانی جمہوریت اورصرف 7 فیصد میں بادشاہت کا نظام رائج ہے دنیا کے 111 ممالک میں صدارتی جبکہ 79 پارلیمانی جمہوریت کے ذریعے نظم اجتماعی تشکیل دیتے ہیں جبکہ 15 ممالک میں بادشاہت اور 7 ملکوں میں آج بھی سامراجی سیاسی نظام موجود ہے

باہم مشورے یا اکثریتی رائے سے حکومت کرنے کا عمل کہیں انتہائی پختگی حاصل کرچکا ہے توکہیں یہ ابھی جڑیں پکڑ رہا ہے لیکن ایک امرپردنیا کی اکثریت متفق ہوچکی ہے کہ فی زمانہ یہی سب سے بہترنظام حکومت ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ بادشاہت اورآمریت کی کوئی بھی شکل کسی بھی صورت میں جمہوری نظام سے بہترنہیں۔ تعلیم، سیاسی شعور، ہم آہنگی، معاشرتی اسباب یا پھر اطمینان قلب کے لئے ہی سہی دنیا کی اکثریت اس نظام کی حمایت کررہی ہے چند اقوام بشمول پاکستان ایسی ہیں جوتاریخ کے الٹے دھارے پربہنے کی آج بھی متمنی ہیں ہم آج تک یہ ہی طے نہیں کرپائے کہ ہمیں کون سا نظام حکومت چاہیے؟

سوچ کی ابتداء تحریک پاکستان سے کریں تو جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آنیوالی مملکت میں کسی اورنظام کی گنجائش نظرنہیں آتی۔ بانی پاکستان محمد علی جناح ؒ کی رہنمائی تسلیم کریں تو بھی کچھ اورسجھائی نہیں دیتا اسلامی نکتہ نظرسے دیکھیں توبھی اللہ رب العزت کا حکم اورپیغمبررسول ﷺ کی طریقت اجتماعی نظم کے لئے باہم مشورے کو بنیاد قراردیتی ہے لیکن ہم ہیں کہ آج تک اسی شش وپنج سے نہیں نکلے۔ پاکستان بنا تو جمہوری نظام حکومت پرکوئی اختلاف نہیں تھا اول اول یہ بحث شروع ہوئی کہ کونسا جمہوری نظام؟ صدارتی یا پارلیمانی؟ ایک ہی بار کے تجربے نے ہمیں بہت سے سبق سکھا دیے لیکن پھرپتہ چلا کہ ہم نے سبق نہ سیکھا۔

جمہوری نظام پرسوفیصد اتفاق رکھنے والی قوم نے صدارتی جمہوریت اورپارلیمانی جمہوریت کی بحث کے دوران کھیل ہی کھیل میں آمریت کے چارتاریک ادواردیکھے۔ ہرپانچ، دس سال بعد جمہوریت پربزورطاقت قبضہ ہوتا رہا۔ بھارت کو خیالی سبق سکھانے، کشمیرکی آزادی، کرپشن کے خاتمہ اور اسلامی نظام کورائج کرنے کے نقاب اوڑھے مداری پاکستانی عوام کو تماشے دکھاتے رہے اورلوگ بھی حظ اٹھاتے رہے ۔ نہ ملک آگے بڑھا نہ بھارت سبق سیکھ سکا نہ کشمیر آزاد ہوا نہ اسلامی فلاحی ریاست بنی اورنہ ہی کرپشن ختم ہوسکی۔ مفاد پرست طبقات جمہوریت کیخلاف آمریت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے قائد کے اقوال سے اپنے معنی مطالب تلاش کرتے رہے ، عدلیہ بھی طاقتورکے ہاتھوں استعمال ہوتی رہی، سیاستدان بھی بکتے اورخریدے جاتے رہے، انتظامیہ کوکٹھ پتلی کی طرح استعمال کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں اورہم سترسال کے طویل سفرکے بعدمنزل کے بجائے ابتدائے سفرکے مقام یعنی قیام پاکستان سے قبل کے جبرواستبدادکے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں آج ہمیں اس دورمیں حاصل شخصی آزادی سے بھی کم آزادی میسرہے۔

ہمارا یہ سوچنا مبالغہ آرائی ہرگزنہ ہوگاکہ جمہوری جدوجہدکے نتیجے میں پاکستان کا ظہوردنیا پرحکومت کرنیوالے تاج برطانیہ کی کمزوری یا کمزورحکمت عملی کے باعث ہواہوگا وگرنہ تو زباں بندی، میڈیا کو کنٹرول کرنے، شخصی آزادیوں پرپابندی، افسرشاہی کو نکیل ڈالنے ، مقامی عمائدین کی وفاداریاں بدلوانے، پولیٹیکل انجینئرنگ اورانتخابی عمل کوکسی کے حق میں ہموارکرنے کے جو طریقے آج پاکستان میں موجود ہیں برطانیہ کو بھی پتہ ہوتے ۔

صاحب مضمون : روزنامہ جنگ سے 2003میں کریئرکا آغاز کیا اور2008تک صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے اس ادارے سے بہت کچھ سیکھا۔ 2008میں سماء ٹی وی کے آغاز کے ساتھ ادارے کو جوائن کیا جہاں براڈکاسٹنگ کی الف ب سیکھنے کے مواقع ملے ۔ آج بھی صحافت کا طالبعلم ہوں اورمزید سیکھنے کاخواہاں ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).