نام بڑے اور کام چھوٹے


ایک مالدار کاروباری آدمی کے 8 بیٹے تھے۔ سب ہی کماؤ پوت۔ دن دُگنی رات چوگنی ترقی ہورہی تھی۔ خود بھی دونوں ہاتھوں سے کمارہا تھا، دولت اور زیورات کے انبار لگارہا تھا، بچوں پر بھی لٹا رہا تھا۔ ایک دن اس کے رقیب کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ اور اس پر رحمتوں کا نزول شروع ہوگیا۔ مالدار آدمی کے دل میں حرص آگئی۔ بڑھاپا ضرور تھا لیکن دل جوان۔ آپشن بھی موجود تھے، دوسری شادی کرلیں، اپنا بچہ پیدا کرلیں یا بیٹوں کی شادی کردیں۔ اگرکماؤ پوتوں کی شادی کردی، تو سراسر نقصان ہی ہے، دنیا والے کہیں گے کسی غریب سے کرو تاکہ بھلا ہو اس کا، پھر وہ جہیز نہ لائی تو اور مصیبت، اور اپنی بیٹی اپنی ہوتی ہے، دوسری پتہ نہیں کیا نصیب لے کر آئے، شادی اور اس کے بعد بچوں کا انتظار کیوں کیا جائے، پھر مسئلہ ایک کی کردی تو باقی سب بھی دیدہ دلیری سے شادی کا کہیں گے۔

جائیداد اور اثاثے ڈبل ہونے کے بجائے تقسیم در تقسیم ہوجائیں گے۔ خود میں دم میں ہے تو یہ جھنڈا بھی خود گاڑتےہیں۔ اپنی دوسری شادی کی صورت میں بھی وہی کچھ ہوگا جو کسی بیٹے کی شادی میں ہوگا۔ تکبر اور حسد کی آگ میں اس نے فیصلہ کیا کہ یہ معرکہ خود ہی انجام دیا جائے۔ دنیا بھر میں بیٹی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا، وہ آئے گی تو یہ کرے گی وہ کرے گی، غریب کو روزگار ملے گا، جن کا پہلے سےروزگار ہوگا ان کا بہت ہی اچھا ہوجائے گا، دنیا کی سب سے بڑی ایمپائر بنائیں گے، سب کو ایک پلیٹ فارم پر لائیں گے، یہ سہولتیں ہوں گی۔ یہ عیاشیاں ہوں گی۔ کوئی خالی ہاتھ نہیں رہے گا۔ پیٹ بھر کے روٹی ملے گی، وقت پر ملے گی۔

دوسال تک خوب چرچا کیا، لوگوں سے معاہدے کرلیے گئے۔ مہمانوں کو مدعو کرلیاگیا۔ اور نو ماہ کی جدوجہد، انتظار کے بعد بالآخر چاند چڑھ ہی گیا۔ ننھی پری کو اپنے درمیان پا کرمالدار آدمی پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے دولت لٹانا شروع کردی۔ ایک بار انویسٹمنٹ کے بعد تو دن ہی پھر جائیں گے۔ پھر پانچوں انگلیاں گھی میں اور سرکڑھائی میں۔ بیٹوں نے بھی خوشی خوشی باپ کا ساتھ دیا۔ مہمانوں نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ۔ قیمتی اور نایاب تحفے تحائف دیے گئے۔ نئے لاجواب معاہدوں کی بنیاد رکھی گئی۔ سب کچھ ہونے کے باوجود رقیب سے ایک قدم پیچھے۔

کیوں بھئی! اس کے بچے اور دولت سب ہی میرے سے کم ہیں لیکن اس کی خوشی ہے کہ کم نہیں ہورہی۔ کس بات کو وہ(رقیب )کامیابی سمجھ رہا ہے۔ میرے پاس تو پہلےسے زیادہ اور خوبصورت ہے۔ اس کے پاس صرف بیٹیاں ہیں جو جہیز لے کر کسی بھی دن دوسرے گھر چلی جائیں گی۔ میں تو فائدے ہی فائدے میں ہوں، لیکن اس بیوقوف کو پتہ ہی نہیں۔ لگتا ہے اس کی عقل ٹھکانے لگانی ہوگی۔ بڑا آیا سیٹھ کہیں کا۔

مالدارآدمی نے گھر آئے مہمانوں کو نوازا لیکن کم قیمت تحائف لانے والوں پر گرم ہوگیا۔ مہمانوں نے یک جہتی کرکے اس کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن مالدارآدمی ہتھے سے اکھڑ گیا، کم قیمت تحائف لانے والے اپنی عزت کو چُپ ہوگئے، کچھ خاموشی سے اس کا گھر چھوڑ کر چلے گئے، بڑوں نے عزت اسی میں جانی کہ مال بھی بٹور لیا جائے اور بات کامان بھی رہ جائے، مالدار آدمی کے گھر سے نکل کر جانا ان ہی کم قیمت تحائف لانے والے مہمانوں میں ہے، رفتہ رفتہ سب نے دامن بچا لیا، معاہدے بھی دم توڑنے لگے، لیکن مالدار آدمی نے اپنے ششکے برقرار رکھنے کے لیے نئے مہمانوں کو مدعو کیا، نئے معاہدے کیے۔ ہلکے ہلکے اچھا برا کام چل پڑا۔

ایک دن مالدار آدمی کی بیٹی بیمار ہوگئی۔ اس نے بیٹی کو بچانے کے لیے بیٹوں سے لی جانے والی آمدنی کا شئیر بڑھا دیا، تشخیص سے معلوم ہوا کہ مالدار آدمی کی اکلوتی بیٹی کو بلڈ کینسر ہے۔ اب اسپتالوں کے چکر شروع ہوگئے، بیٹی کا گردہ ناکارہ ہوگیا۔ مالدار آدمی نے بیٹوں کی میٹنگ بلائی اور بیٹی کی جان بچانے کے لیے صلاح مانگی۔ بیٹوں نے دن رات خدمت کی ہامی بھر لی، مالدار آدمی بیٹی کے غم میں گھلنے لگا، پھر اچانک روپوش ہوگیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا وہ کہاں ہے لیکن اس کے بیٹے رابطے میں رہے۔ بیٹی کو صحت مند بنانے او ر رکھنے کے لیے اپنے والد کو تسلی دیتے رہے۔ بیٹی کی پرورش مختلف طریقے سے ہوتی ہے اور بیٹو ں کی الگ، نادان کو اس کی سمجھ نہ آئی۔ بیٹوں کو بہن کی ذمہ داری سونپ کر لا تعلق ہوگیا۔

بیٹوں میں سےہر اک نے بہن پر اپنا ہولڈ بنانا شروع کردیا۔ بیٹوں کے درمیان اختیارات، حقوق اور جائیداد میں حصے کےجنگ چل پڑی۔ آپس کی چپلقش نے بیٹی کو نڈھا ل کردیا، بظاہر خوبصورت، جوان اور تازہ دم نظر آنے والی۔ لاغر، بدصورت اور بیمار ہوگئی۔ پتے(گال بلیڈر) نے کام کرنا چھوڑ دیا، جگر میں تپش بڑھ گئی۔ بھائی ساتھ دینے کی کوشش کررہے تھے۔ لیکن والدین کو سنگین حالات کی خبر نہ ہونے دی۔ بیٹی کی طبیعت سنبھلنے کے بجائے دن بدن بگڑنے لگی۔ پہلے ایک ماہ۔ اسپتال رہی، خود ساختہ مالدار آدمی کو خبر نہ ہوئی۔ جیسے تیسے کرکے زندگی کی گاڑی چلنے لگی، دوماہ بعد بیماری نے زور مارا۔ اور تین ماہ کے لیے اسپتال میں۔ ڈاکٹرزبھی پریشان ہوگئے۔ ہر ایک دو ماہ بعد ہی بیٹی بیمار کیوں ہوجاتی ہے؟

بیٹوں نے جھوٹ بول کرخلاصی کرائی، لیکن اب بیماری کا اثر جسم کے دیگر اعضا پر ظاہر ہونے لگا۔ پھیپھڑوں نے کام کرنا دھیما کردیا، اب سانس لینا بھی مشکل ہوگیا، مالدار آدمی جو بیٹی کے غم میں گھل رہا تھا، اب تک منظر عام پر نہ آیا۔ دردِ دل رکھنے والوں نے بیٹوں کی کارستانی اور بیٹی کی بیماری کی خبر دینا چاہی۔ توبیٹوں نے اثرورسوخ دکھا کر، انہیں ڈر ادھمکا کر خاموش کرادیا اور چلتا کیا۔ معاملہ گمبھیر ہوتا چلا گیا، اب بیٹوں نے بہن کا دھیان رکھنا چھوڑ دیا، دوائی دینا بند کردی۔ خرچہ پانی روک دیا۔ دو دو تین تین ماہ تک خبر لینا بند کردی۔ بیٹی کی حالت دیکھ دیکھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا، کہ بس! چند دنوں کی مہمان ہے، یا تو اس کا بلڈ (خون)چینج کردو یا پھر ڈاکٹر بدل لو۔

لیکن باپ کی طرح بیٹے بھی حریص تھے، اپنی اور باپ کی دولت پرسانپ بن بیٹھے۔ اپنی اور باپ کی کمائی دونوں ہاتھوں سے اللے تللوں میں اڑانے لگے۔ کسی کی بات کو خاطر میں نہ لاتےہوئے اپنا ہی نقصان کرنے لگے، کفران ِ نعمت ان کی فطرت بن گئی۔ اور پھر ہوا وہی جس کا سب کو ڈر تھا۔ سسک سسک کر جینے والی بالآخرختم ہوجائے گی۔ لیکن اس مالدار آدمی کو کیا اس کی سزا ملے گی؟ تکبر، حسد، لالچ اور دوسروں کے ساتھ حقارت سے پیش آنے پر، دوسروں کا حق مارنے، دوسروں کو اذیت دینے پر، اللہ کی نعمتوں پر شکر نہ کرنے اور بار بار ٹھکرانے پر کیا سزا ملے گی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہے۔ ہر کام بات کی جزاؤ سزا ہے۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، کسی کی بددعا کام کرے نہ کرے لیکن دل سے نکلی آہ نسلیں برباد کردیتی ہے۔

ربیعہ کنول مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ربیعہ کنول مرزا

ربیعہ کنول مرزا نے پنجاب اور پھر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ صحافت میں کئی برس گزارے۔ افسانہ نگاری ان کا خاص شعبہ ہے

rabia-kanwal-mirza has 34 posts and counting.See all posts by rabia-kanwal-mirza