امت مسلمہ کے تصور کا ظالمانہ استعمال


مسلم اُمّہ کا جو خوشگوار تصور اسلامی تعلیمات میں ہمیں ملتا ہے اسے ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں نے ایک بوجھ بنا دیا ہے۔ ایسا بوجھ جس کے تلے پہلے برصغیر اور پھر پاکستان کے مسلمان مسلسل پستے آئے ہیں۔ پیسنے والوں کے تو خیر اپنے مفادات تھے لیکن پسنے والوں نے جس رضامندی سے اپنا آپ گنوایا ہے اس پر عقل حیران رہ جاتی ہے۔

بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں مسلمان قوم کے جلیل القادر رہنماؤں نے نظام خلافت کے تحفظ کے نام پر برصغیر کےمسلمانوں کو افغانستان ہجرت کا سبق پڑھایا۔ ہندوستان اب ان کے لیے دارلحرب تھا ۔ تاہم “دارالسلام” افغانستان کے مسلم بھائیوں تک ابھی شاید “ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی” والا پیغام نہیں پہنچا تھا لہذا انھوں نے ہندوستان کے برادرمسلم بھائیوں کو لوٹ ماراور غارت گری کے بعد واپس دارلحرب بھگا دیا۔ ہزاروں سادہ لوح جان سے گئے سینکڑوں گھرانے اجڑ گئے تاہم ان رہنماؤں کی رہنمائی پر کوئی حرف نہ آیا ۔انہیں آج تک راہ نما ہی لکھا، بولا اور پڑھا جاتا ہے۔

خیر وہ وقت بھی گذر گیا۔خطے کے مسلمانوں کے لیے خوابوں کا ایک گھروندا وجود میں آیا ۔ خیال تھا کہ اس گھر میں امن و سلامتی، بھائی چارے اور خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔ لیکن کسی نے کونپلوں کے پھوٹنے سے پہلے ہی کیاری میں انتہا پسندی کا زہر ملادیا۔پھررفتہ رفتہ ہم اپنے گھر کو اسلام کا قلعہ قرار دے کر امت مسلمہ کی قیادت کی راہ پر چل نکلے ۔

اسی غیر حقیقی سوچ کے تحت ہم نے دور دراز کے طاقتور ملکوں سے دشمنیاں مول لیں اور پھر ہم پر ضیائی ظلمت کا طویل دور مسلط ہو گیا۔ اس تہجد گزار مومن نے اپنے ناجائز اقتدار کو طول دینے کے لیے کذب و ریا جیسے اعمال کو نئی جہتیں بخشیں۔ اسی مقصد کے لیے اس نے حلیف اسلامی جماعتوں کی مدد سے امت مسلمہ کی قیادت کے تصور کوانتہائی بے رحمی سے استعمال کرتے ہوئے جہاد کے نام پر قوم کے ہزاروں جوانوں کو ایک پرائی آگ میں بھسم کروا دیا۔۔

اس کے بعد خطے میں جہاں جہاں جس جس گروہ کو اپنے علاقائی مفادات کی جنگ میں جھونکنے کے لیے ایندھن کی ضرورت پڑی ہمارے مدرسوں کے معصوم نوجوان پیش کردئیے گئے۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ تھی کہ آنے والوں برسوں میں جب طالبان اور شمالی اتحاد کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوئی تو مسلمان فریقین کے درمیان خالصتا اقتدار کی اس جنگ میں بھی ہمارے مدرسوں کے غریب طلبااسلام کے نامپر بے دریغ استعمال ہوئے۔۔۔

معروضی حالات اور حقائق سے لاعلمی کی انتہا یہ ہے کہ ہماری مساجد میں آج بھی ان ممالک کی خانہ جنگیوں جہاں مسلمان ہی مسلمان کو کاٹ رہا ہے کے حوالے سے امریکہ اور یہود و ہنود کو بددعائیں دی جاتی ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر مناتے ہوئے ہم اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچاتے اور فلسطین پر اسرائیلی، روئنگیا مسلمانوں پر میانمار اور عراقی بھائیوں پر امریکی مظالم کے احتجاج میں ہم اپنے ہی شہروں کے نظام کو پامال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہم جس قلعے کی تعمیر یا امت کی جس قیادت پر تلے رہے ہیں ہماری سرحدوں سے باہر کسی مسلمان ملک میں اس کا تصور تک نہ تھا۔لیکن یہ بات اس کھیل کی خالق غیر جمہوری قوتوں اور عوامی سطح پر مسترد شدہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے کبھی کسی پریشانی کا باعث نہیں رہی۔ وہ اس لیے کہ یہ سارا ڈھونگ رچایا ہی صرف ملکی سیاست اور سماج پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے گیا تھا۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا عام پاکستانی اب بھی اتنا ہی لاعلم اور بے شعور ہے کہ جتنا وہ تحریک خلافت کے وقت تھا؟ کیا اس جدید دور میں بھی وہ بین الاقوامی سیاست سے متعلق امور کا ادراک نہیں رکھتا؟

ایسا نہیں ہے۔ عام پاکستانی اب مذہب کے نام پر جذباتی نعروں اور امت مسلمہ کے حوالے سے پڑھائے گئے مخصوص سبق کی اصلیت سے آگاہ ہو چکا ہے اور اب وہ پرائے جھگڑوں میں الجھنے کی بجائے اپنے گھر کو سنوارنا، اپنی معیشت کو بہتر بنانا اور اپنے معیار زندگی میں اضافہ چاہتا ہے۔

لیکن دیکھا جائے تو اس آگہی کے باوجود بھی ہماری مجموعی ریاستی پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکی۔ جس ویژن سے عام آدمی کو اختلاف ہے وہی سوچ اس پر مسلط ہے اور قومی سطح پر اس تضاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم پر آج بھی ہمارے حقیقی نمائندوں کی بجائے غیر جمہوری قوتیں اورمسترد شدہ مذہبی عناصر ہی حکومت کرتے ہیں۔
21/07/2018

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa