ووٹ کو کیوں عزت دو؟


ووٹ کو عزت دو مطلب حق رائے دہی کو عزت دو۔ رائے کو اہمیت دینا آزادی اظہار کو ماننا ہی جمہوریت ہے۔ یہ ہر آزاد شہری کا بنیادی حق ہے۔ کل مجھے ایک دوست نے ایک پوسٹ میں ٹیگ کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ووٹ کو عزت دینے کی بجائے ریاست اور ریاستی ادارے شہریوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے پہ توجہ دیں۔ بات یہ ہے کہ ان دو باتوں کا موازنہ نہیں بنتا۔ بلکہ یہ دونوں باتیں ایک ہی ہیں۔ اگر ووٹ کو عزت دے جائے مطلب عوام کی رائے کو اہمیت دی جایے گی اور ان افراد کو چنا جائے گا جنہیں عوام اپنے لیے بہتر سمجھتی ہے اور جنہیں اپنا نمائندہ مانتی ہے تو اسے یہ بھی یقین ہو گا کہ ان کی چنی گئی جماعت اور نمائندے ان کے شہری حقوق کی حفاظت کریں گے۔ انہیں آزادی رائے کی آزادی ہوگی۔ ایک شہری کی حیثیت میں انہیں صحت، صفائی، تعلیم اور سماجی حفاظت کی سہولیات بغیر مطالبے کے حاصل ہوں گی۔

عوام سے منڈیٹ حاصل کرنے کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ عوامی رائے کو مانتے ہوئے ان کے چنے گئے نمائندے حکومت قائم کرسکتے ہیں۔ لیکن جو طاقتیں اس عوامی رائے کو نہیں مانتیں وہ مختلف طریقوں سے ملک میں انارکی پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں۔ حکومتی عدم استحکام کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے اختیار کیے گئے ہیں۔ ان میں دھرنے بھی شامل ہیں اور مذہب کا کارڈ بھی۔ لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اس طرح کی انارکی کے آپ کی ملکی معیشت پہ کیا اثرات پڑتے ہیں۔ اور ان کا آپ کی زندگی پہ کیا اثر ہوتا ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ اس کا اثر امن و امان کی صورتحال پہ پڑتا ہے۔ ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ جو کہ کاروباری و معاشی نقطہ نظر سے انتہائی نقصان دہ ہے۔ ایک سادہ سی مثال ہے جب لوگوں کو خوف ہو کہ ان کے علاقے میں احتجاج ہے، ہڑتال ہے یا راستے بند ہیں تو وہ اپنی حفاظت کے لیے گھروں سے نکلنے کو اوائیڈ کرتے ہیں۔ اس کا اثر ایک کاروبار کرنے والے پہ کتنا برا پڑتا ہے کہ اس دن اس کی آمدن پہ واضح فرق پڑتا ہے۔ تو سوچیں جب آپ اس ملک کے شہری ہوتے ہوئے اتنے عدم اعتماد کا شکار ہو سکتے ہیں تو بیرون ملک سرمایہ کار کیوں اپنا پیسہ ایسے ملک میں لگائے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ دھرنوں کا، ہڑتالوں اور انارکی کا اثر صرف حکومت پہ نہیں پڑتا بلکہ یہ براہ راست عام لوگوں کی زندگیوں پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے تحریک لبیک کے دھرنے کے دوران میں ملتان میں تھی۔ جاب سے واپسی پہ راستہ بلاک ہو گیا۔ مجھے واپسی کے لیے کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔ پولیس لوگوں کو یہ سمجھا کے واپس جانے کو کہہ رہی تھی کہ مظاہرین متشدد ہوسکتے ہیں آپ واپس جائیں۔ اس دوران میں نے کوئی ایک کلومیٹر کے فاصلے میں تین ایمبولنسز دیکھیں جن میں مریض انتہائی کریٹیکل حالت میں تھے لیکن انہیں بھی راستہ نہیں دیا گیا۔ اس دن میں جیسے واپس پہنچی یہ کہانی الگ ہے لیکن جن لوگوں کی جان پہ بنی تھی ان کے لیے بھی انسانیت نام کو نہیں تھی۔ یہ کیسا احتجاج تھا جس میں براہ راست تکلیف معصوم عوام کو تھی۔ جس میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔

ذرا سوچیں ایسی جگہ کون سا فارن انویسٹر سرمایہ کاری کرنے کا سوچے کا۔ اور دوسرا یہ سب کر کے آپ نے کون سا اخلاقی یا فلاحی کام کیا کہ جس سے سماج میں سدھار آئے۔ یہ مہذب اختلاف رائے نہیں تھا بلکہ اس کو انتقامی کارووائی کہتے ہیں جس میں صرف اپنے مفاد کو مقدم رکھا جاتا ہے۔

تیسری اور آخری بات یہ کہ حالات خواہ کتنے ہی ناگزیر کیوں نہ ہوں۔ آپ کو کتنی ہی مشکالت کا سامنا کیوں نہ ہو ایک بات سمجھ لیجیے ایک شہری کی حیثیت میں آپ کا سب سے مقدم حق رائے کا اظہار ہے۔ جب تک آپ خود اس حق کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اسے مقدم نہیں رکھیں گے کوئی دوسرا اس کی قدر نہیں کرے گا۔ اس لیے ووٹ کی صورت میں اس کا اظہار کیجیے۔ یہ ایک دن کی نہیں پانچ سال کی بات ہے۔ اپنے ووٹ کی طاقت کو پہچانیے۔ اسے مثبت انداز میں استعمال کیجیے۔ 25 جولائی کو گھروں سے نکلیے ایک ایس حکومت کی بنیاد رکھیے جو چوں چوں کا مربہ نہ ہو بلکہ بھاری مینڈیٹ والی حکومت ہو۔ جس کا منشور واضح، جو آپ کی اہمیت کو سمجھے اور حکومتی فیصلوں میں جمہوری رائے کو اہمیت دے۔ تبھی آپ معاشی طور پہ سنبھلیں گے، مضبوط ہوں گے، تب یہاں بیرونی سرمایہ کاری ہوگی اور ملک ترقی کرے گا۔

ایک اور بات اقوام کے اخلاق کا تعلق معیشت سے ہوتا ہے۔ اگر آپ معاشی طور پہ مضبوط ہیں تب اخلاقی اقدار بھی پنپتی ہیں۔ ایک خالی معدے والا انسان جو ہر وقت کھانے کے بارے میں سوچتا ہے اسے اخلاقیات، ایمانداری، بہتر مستقبل اور سچائی سے زیادہ اپنی بھوک کی تسکین کی فکر ہوتی ہے۔ تو ممکن ہے کہ مناسب انداز سے نہیں تو ہر غلط ذریعے سے وہ اپنی اس بنیادی ضرورت یعنی بھوک کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس لیے سوچ سمجھ کے فیصلہ کیجیے یہ صرف افراد نہیں بلکہ قوم کا معاملہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).