میں کیوں کہوں کہ تم کھوتے ہو



تمام سیاسی پارٹیاں ہمیشہ سے ہی جب میدان میں اترتی ہیں۔ تو اپنا ایک منشور عوام کے سامنے رکھتی ہیں۔ آنے والے کل کے لیے ایک ایک لائحہ عمل مرتب کرتی اور پھر عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ اپنے ووٹر سے جھوٹے سچے وعدے کرنا ہمیشہ سے سیاسی جماعتوں کا وطیرہ رہا ہے، ان جھوٹے سچے وعدوں پہ ہمیشہ سے ہی عوام کو زندہ باد زندہ باد کے نعرے لگاتے دیکھا گیا ہے۔ آج کل پھر سیاسی میدان میں کافی زیادہ گرما گرمی کا عالم ہے۔ دیہاتی، شہری، امیر، غریب، مزدور، ریہڑی بان، سبزی کے ٹھیلے والے تندورچی، باشعور، خواندہ، ناخواندہ، مل مالکان، علماء، طلباء صوفیاء، غرض ہر مسلک، مسجد، مندر گردوارے سے تعلق رکھنے والے لوگ چھوٹے بڑے بزرگ،عورتیں، مرد، بچے جوان سیاست پہ بات کرتے نظر آتے ہیں، ہر سیاسی پارٹی اپنے اپنے انداز میں ووٹر کو رام کرنے کے چکر میں ہے۔

سیاسی پارٹیوں نے اس بار ایک نیا نعرہ متعارف کروایا ہے، ووٹر کو اور ووٹ کو عزت دو۔ اب اس عزت کا معیار کیا ہے، آہستہ آہستہ اس کا پول بھی کھلنا شروع ہوگیا ہے۔ ایک سیاسی رہنما کا فرمان عظیم ہے کہ جو بندہ نواز شریف کا استقبال کرنے لاہور ائیر پورٹ پر گیا وہ گدھا ہوگا، لیں جی ایک پارٹی کی طرف سے عطا  کردہ عزت ووٹر کے حصے میں یہ آئی کہ ووٹر گدھے ہیں۔ دوسری جانب ایک اتنہائی معتبر شخصیت نے جواباََ بیان دیا کہ جو پنجابی عمران خان کو ووٹ دیں گے وہ بے غیرت ہوں گے، لیں جی یہ ووٹر کے لیے دوسرا انعام حاضر ہے۔ مطلب ہر حال میں بے غیرت اور گدھے ووٹر ہی ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ووٹر کو پنجابی سندھی، بلوچی پٹھان، سرائیکی کہہ کر مخاطب کرنا ہی جہالت ہے اور تعصبانہ سوچ ہے، ہم بحیثیت مجموعی ایک قوم الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ہم پاکستان کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں قبائل، قوموں یا نسلوں کو نہیں۔ لسانی تفریق پیدا کر نا اور ذات برادری کے نام پہ ووٹ مانگنا ہی جہالت ہے۔ میں سمجھتا ہوں ووٹر کسی بھی پارٹی کا ہو کسی بھی جماعت کا ہو وہ پاکستانی ہے۔ او ر باعزت شہری ہے۔ اور پاکستانی کو گالی دینا گدھے یا بے غیرت کہنا آپ کی عقل کی قلعی کھول دیتا ہے۔ اب اصلی گدھے اور بے غیرت کون ہیں اس کا فیصلہ کون کرے۔ کیا سیاسی رہنماﺅں کی تقاریر اور ان کے اثاثوں کی تفصیلات، اثاثوں کی قیمت۔ آمدن او ر اثاثوں کا تناسب اخراجات اور شہہ خرچیاں اس بات کا فیصلہ کر سکتی ہیں؟

چلیں ان سیاسی رہنماﺅں کی تقاریر کا بھی کچھ ذکر کرتے ہیں۔ عوامی نمائندے خوب پرجوش تقاریر کرتے نظر آرہے ہیں۔ کچھ نے تو جوش خطابت میں یہاں تک فرما دیا کہ نعوذ با اللہ اللہ تجربات سے سیکھتا ہے۔ بے شک بعد میں یہ جملہ کہنے والی لیڈر محترمہ نے قوم سے معافی بھی مانگی اور اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا لیکن جوش خطابت کی رو میں بہہ جانے والی لیڈر کو کیا نام دیا جانا چاہیے؟ کسی نے اپنے لیڈر کے استقبال کرنے کو حج کی سعادت سے بھی بڑا درجہ دے دیا۔ جوش میں آنا اچھی بات ہے اپنے لیڈر سے پیار کرنا ہر جیالے اور سیاسی ورکر کا حق ہے۔ لیکن جذبات کی لہر میں اس قدر بہہ جانا کہ اپنے الفاظ کے معانی ہی آپ کو سمجھ نہ آئیں سراسر غلط اور قابل افسوس ہے۔ ایک سیاسی لیڈر جلسے میں اپنی تقریر کے دوران فرماتے ہیں کہ تحریک انصاف کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کو ملک میں جلسہ کرنے کی اجازت ہی نہیں مل رہی تو جناب اگر اجازت نہیں مل رہی تو آپ کہاں کھڑے ہیں۔ آپ کے سامنے عوام ہے اور آپ جلسے سے ہی خطاب فرما رہے ہیں۔ ایک لیڈر صاحب فرماتے ہیں کہ کسی کا باپ بھی نواز شریف سے استعفی نہیں لے سکتا، تو جناب اب تو جیل بھی ہوگئی اور ابھی تک آپ ملاقات کو بھی تشریف نہیں لائے، ایک لیڈر صاحب فرماتے ہیں کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے تو جناب اب آپ ہی بتائیں وہ شرم اور حیا کہاں ہوتی ہے، کیا سابقہ وزیر خزانہ صاحب سے مل سکتی ہے۔ کبھی ملے تو ہمیں بھی متعارف کروایے گا، لوہے کے چنے کو شاید یاد نہیں رہا کہ لوہے کو پگھلا کر کاریگر گھوڑوں کے پیروں کے نعل بنا لیتے ہیں۔

ہمارے ایک سیاسی بالک آج کل فرما رہے ہیں کہ میں سندھ سے بھوک ختم کردوں گا۔ سستے تنور لگاﺅں گا جہاں غریبوں کو سستی روٹی ملے گی کیوں کہ ہماری پارٹی کے منشور میں شامل ہے روٹی کپڑا اور مکان۔ تو جناب لیڈر صاحب آپ سندھ کے عوام کو روزگار دینے کی بات کیوں نہیں کرتے۔آپ خیرات اور بھیک دینے کی بات کیوں کرتے ہیں، آپ قوم کو روٹی کے حصول تک ہی محدود کیوں رکھنا چاہتے ہیں۔ بھیک دینے سے غربت ختم نہیں ہوتی ذریعہ معا ش دینے سے حالات بہتر ہوتے ہیں۔ روزگار فراہم کرنے کی بات کریں۔ آپ عزت دینا چاہتے ہیں تو خود دار معاشرے کے قیام کی بات کریں۔ نظام تعلیم کی بات کریں۔ خواندگی کی شرح بڑھانے کی بات کریں۔ آپ تو انتہائی اعلی تعلیم یافتہ ہیں آپ بھی اپنی قوم کو روٹی کے حصول کے لیے لائن میں لگا دینا چاہتے ہیں۔ صرف پانی کا فلٹر لگا دینے سے صاف پانی میسر نہیں آتا پہلے پانی کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ آپ اپنے ووٹر کو یہ عزت دینا چاہتے ہیں کہ وہ لائن میں لگ کر سستے تنور سے روٹی لے مطلب آپ کی نظر میں یہ ووٹر کی عزت ہوگی۔

اب آتے ہیں قوم کی بیٹی اور ماں کی طرف۔ چند روز قبل نواز شریف صاحب کی والدہ ماجدہ کی ایک ویڈیو اور کچھ تصاویر سوشل میڈیا پہ گردش کرتی رہی ہیں۔ جن کو دیکھ کر یقینا ہر بیٹا افسردہ اور سوگوار ہوا ہو گا۔ کیوں کہ ماں وزیر کی ہو یا فقیر کی۔ چو ر کی ہو یا چوکیدار کی۔ ماں بہرحال ماں ہوتی ہے۔ اور کسی بھی ماں کو تکلیف میں دیکھ کر باشعور بیٹے پریشان ہو ہی جاتے ہیں ہم بھی آپ کی تکلیف کو سمجھتے ہیں۔ لیکن ماں جی آپ کو تکلیف میں دیکھ کر ہم اس ماں کو کیسے بھول جائیں۔ جس کو سخت سردی کے موسم میں ہسپتال میں بیڈ نصیب نہ ہو ا اور وہ ٹھنڈے فرش پہ ٹھٹھر ٹھٹھر کر کسی مسیحا کا راستہ دیکھتی رہی اور اس کا انتظار ختم نہ ہوا کسی نے اسے زمین سے اٹھا کے بیڈ پہ نہ لٹایا اور وہ وہیں مایوسیوں کا شکار موت کی آغوش میں چلی گئی، ماں جی ہم اس ماں کو کیسے بھول جائیں جس نے بیچ سڑک بچے کو جنم دیا اور آپ کے بیٹے کے تمام خدمت کے دعوﺅں کو ننگا کر دیا۔

مریم بی بی آپ کہتی ہیں کہ میں قوم کی بیٹی ہوں۔ تو آپ مجھے بتائیں جب میلسی کی دوبہنوں نے محض اس وجہ سے خودکشی کی کہ ان کا باپ ان کے جہیز کا سامان نہیں بنا پا رہا تھا او ر وہ خود کو باپ پہ بوجھ تصور کر رہی تھیں انھوں نے خود کشی کر کے باپ کا بوجھ ہلکا کردیا۔ ہم ان بیٹیوں کو کیسے بھول جائیں۔ آپ کی تکلیف اور ان دو بیٹیوں کی تکلیف کا موازنہ آپ خود ہی کرلیں۔ جس دن آپ لاہور واپس آئی ہیں اس دن جو آپ کے پاﺅں میں چپل تھی لوگوں نے تو اس کی قیمت بھی ڈھونڈ نکالی۔ اگر سچ مچ اس کی قیمت اتنی ہی تھی تو پھر آپ کو جیل کی کال کوٹھڑی نصیب ہونے پہ افسوس نہیں ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).