ثقافت کی افیون اور ہماری فلم انڈسٹری


پاکستان اور ہندُستان کے بیچ میں فلم کی تجارت پہ پابندی کے کیا فائدے اور کیا نقصانات ہوئے، اس کا جائزہ لینے سے پہلے اُس اعتراض پہ نظر ڈالتے ہیں، جو اٹھایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے، کہ ہندُستان اور ہماری ثقافت میں‌ فرق ہے، اس لیے اُن کے پروگرام ہماری ثقافت پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ ثقافت کی آج تک کوئی ایسی تعریف نہیں کی جا سکی، جس پہ سبھی متفق ہوں۔ بتایا جاتا ہے، کہ ایک سو ساٹھ سے زیادہ تعریفیں پائی جاتی ہیں؛ بعض تعریفیں عام مفہوم، اور بعض خاص مفہوم کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ E.b Taylor کے مطابق، ”علم، دانش، ہنر، افکار، عقائد، قوانین، مقررات، آداب، رسوم اور دستورات کے مجموعہ کا نام ثقافت ہے“۔

ہم اپنے گھر ہی کو دیکھیں اور پڑوسی کے گھر کی ثقافت کا معائنہ کرنے چلیں تو معلوم ہوگا، کہ اس میں کچھ نہ کچھ فرق ہے؛ اسی طرح باقی اہل محلہ کے گھروں میں مختلف ”ثقافت“ دکھائی دے گی۔ ان سب کے مجموِع سے محلے کی ثقافت جنم لے گی۔ ایک محلے کی ثقافت دوسرے محلے کی ثقافت سے مماثل بھی ہو سکتی ہے، اور الگ بھی۔ ہر گاوں، ہر شہر کی اپنی ثقافت ہے، اور ہر ملک، اور ہر خطے، برصغیر، براعظم کی اپنی ثقافت ہے۔ یوں‌ دیکھا جائے تو پاکستان کی ثقافت سے مراد پاکستان کے ہر محلے ہر شہر، گاوں، صوبے کی مشترک رسوم و رواج، علم، دانش، ہنر، افکار، عقائد، قوانین، مقررات، آداب، وغیرہ ہوں گے۔ یہ ایک جیسے بھی ہیں، اور ان میں فرق بھی پایا جاتا ہے۔ سبھی پاکستانی ثقافت کہلائے گی۔

پاکستان میں ہندو بھی بستے ہیں، اور عیسائی بھی؛ ان کی شادی بیاہ، اور دیگر رسومات پاکستانی رسومات پاکستانی ثقافت ہی کہلائیں گی۔ اس لیے جب ہم فلم یا ٹیلی ویژن ڈرامے میں ہندو یا عیسائی کی شادی کا منظر پیش کریں گے؛ تو ویسا ہی دکھائیں گے۔ اس پہ یہ اعتراض بے جا شمار ہوگا، کہ یہ پاکستانی ثقافت نہیں۔ پنجاب کے ہندو اور سندھ کے ہندو کی شادی کی رسومات میں مماثلت کے باوجود کہیں نہ کہیں اختلاف پایا جاتا ہوگا؛ جیسا کہ سندھ کے مسلمان اور پنجاب کے مسلمان کی غمی خوشی کی رسومات میں کچھ مماثلت اور کچھ تفریق پائی جاتی ہے۔

ایسا ہی احوال پورے برصغیر کا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہندُستان کی ثقافت اور پاکستان کی ثقافت میں فرق ہے، تو یہ ایسا ہی فرق ہے، جیسا سندھ، پنجاب، کشمیر، گلگت، بلوچستان کی ثقافت کا فرق۔ جیسے سندھ کی ثقافت پنجاب کی ثقافت کے لیے خطرہ نہیں بنی، ویسے ہی ہندُستان کی ثقافت پاکستان کی ثقافت کے لیے خطرہ نہیں۔ کل مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی ثقافت کو ”پاکستانی ثقافت“ کہا جاتا تھا، آج بنگلا دیش اور پاکستان کی الگ ثقافت کہلاتی ہے۔ یہ پہچان کے لیے ہے، ورنہ مشرقی پاکستان کی ثقافت کل بھی وہی تھی، جو آج بنگلا دیش کی ثقافت ہے۔ ایسے ہی جیسے 1947ء سے پہلے برصغیر کی ثقافت ایک تھی۔ بالفرض کوئی کہتا ہے، یہ ایک نہیں تھی، تو آج پاکستان کی ثقافت بھی ایک نہیں ہے۔

فلم کی بات آتے ہی ہندُستانی ثقافتی یلغار کا غلغلہ بلند کرنے والوں نے انگریزی فلموں کی ریلیز پہ پابندی کا مطالبہ کبھی نہیں کیا۔ کیا امریکا، یا ہالی وُڈ کی ثقافت ہماری ثقافت کے لیے خطرہ نہ ہوئی؟ کیا ہندُستانی ثقافت اتنی مضبوط ہے، اور پاکستانی ثقافت اتنی کم زور کہ اُسے اپنی سے مضبوط ثقافت نگلنے جا رہی ہے؟

یہ بھی دیکھیے کہ 1965ء کی جنگ سے پہلے اس نعرے کی گونج کہیں نہیں سنائی دیتی کہ پاکستانی اور ہندُستانی ثقافت الگ الگ ہیں۔ اس جنگ کے بعد دونوں ملکوں نے دوسری اشیا کے ساتھ فلموں کی تجارت کا سلسہ بند کر دیا، اور پھر جب کبھی کہا گیا کہ اس سلسلے کو بحال کیا جائے، تو یہ اعتراض پیش کر دیا جاتا کہ ”ہماری ثقافت کو خطرہ ہے“۔ یہ آوازیں بظاہر ایک چھوٹے سے حلقے کے حلق سے برآمد ہوتی ہیں، لیکن یہ چھوٹا سا ”حلقہ“ دراصل انتہائی طاقت ور حلقہ ہے۔

جب ہندُستان سے آزادانہ تجارت کی بات چل نکلے تو یہ طاقت ور حلقہ مذہب، ثقافت، ہندو مکاری کے نعرے لیے سامنے آ جاتا ہے۔ معصوم عوام ان کے دیے نعروں کی جگالی کرنے لگتے ہیں۔ ہم سبھی جانتے ہیں، کہ پاکستانی بازاروں میں ہندی فلمیں کھلے عام دست یاب ہیں؛ عوام بے جھجھک دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ہندُستانی بازاروں میں پاکستانی ڈراموں کا کاروبار ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کے بیچ میں ہنڈی کے کاروبار کا وسیع نیٹ ورک ہے، لیکن ریاست، ریاست سے تجارت کی بات کرے، تو ”ثقافت“ خطرے میں پڑ جاتی ہے؟ کیا دو ریاستوں کے قریب آنے سے ایک ریاست کی ثقافت خطرے میں پڑ جاتی ہے؟

اگر فلم ٹی وی ہی کلی ثقافت ہے، تو مان لیجیے عوام نے اپنی ثقافت سے منہ موڑ لیا، لیکن دیکھیے کہ ریاست پاکستان نے اس ثقافت کو بچانے کے لیے کیا کِیا؟ کیا فلم اور کیا ٹیلے ویژن، ریاست ٹیکس تو دونوں سے لیتی ہے، لیکن انڈسٹری کے لیے کوئی موثر پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے۔

ہندُستانی ریاست نے اپنی فلم انڈسٹری کی ترویج کے لیے کیا اقدامات کیے، اس کا بیان الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ یہاں‌ یہ بحث نہیں۔ پاکستان میں شوبز سے وابستہ افراد یہ چاہتے ہیں، کہ انھیں وسیع مارکیٹ ملے؛ ایسا تبھی ہوگا، جب ریاستی سطح پہ ہندُستان کی فلم پاکستان میں آئے اور پاکستانی فلم ہندُستان جائے۔

چند شرپسندوں، نفرت کرنے والوں کے دباؤ میں آ کر برصغیر کے لوگوں کو یرغمال بنانا اور ثقافت کی گولی دینا؛ عقل و فہم سے بالاتر ہے۔ اردو یا ہندی کا اسکرپٹ الگ سہی، یہ ایک ہی زبان ہے۔ اس لیے اردو ڈراموں اور فلموں کی مارکیٹ وہی ہے، جہاں‌ جہاں اس زبان کو سمجھنے والے بستے ہیں۔ انگریز، فرانسیسی، عرب، اور دوسرے اس زبان کے پروگرام تبھی دیکھیں گے، جب یہ ان کی زبان میں پیش کیے جائیں، نیز ان کا معیار بین الاقوامی معیار کو چھونے لگے۔

وسائل کیوں کر بہ تر ہوں گے؟ تبھی جب کاروبار کو وسعت ملے گی۔ جن وسائل کے ساتھ یہاں کام ہو رہا ہے، ان وسائل کو مدِنظر رکھتے عکس و آہنگ کی پیش کش کو کیوں کر بہ تر کیا جا سکتا ہے؛ نہیں کیا جا سکتا؛ ممکن ہی نہیں۔ حد تو یہ ہے، کہ پاکستانی فلموں کی Sound ہندُستان کے اسٹوڈیوز میں تیار ہونے جا رہی ہے، ہمارے پاس اس سطح کے آلات ہی نہیں کہ رِکارڈ کی گئی آواز، سینما ہال کے اسٹینڈرڈ کو پہنچتی ہو۔

ایسا کیوں ہوا؟ جب ہماری فلموں کی مارکیٹ محدود ہوتی گئی، تو جن نِت نئے آلات کی ضرورت تھی، وہی نہ منگوائے گئے؛ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، اور ہم متروک کیمروں، ساؤنڈ رِکارڈر، ایکسپائر فوٹیج کو لے کر کے فلمیں بناتے رہے۔ آج ہمیں معیاری پوسٹ پروڈکشن کے لیے بنکاک یا ہندُستان کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ ایسا ایک دن میں تو نہیں ہوا۔ پاکستانی فلم کی مارکیٹ محدود ہونے سے بہت سے دیگر نقصانات کے علاوہ ایک نقصان یہ ہوا کہ جدید مشینیں نہ آئیں، تو ٹیکنیشن بھی نہ پیدا ہوئے۔ بعینہ جو کچھ یہاں‌ ہوا، بالکل اس کے برعکس ہندُستان میں ہوا۔ نتیجہ بتاتا ہے، کہ وہ دُنیا کی نمایاں فلم انڈسٹری میں سے ایک ہے، جس ثقافت سے ہمیں خطرہ محسوس ہوتا ہے، وہ اسی ”ثقافت“ کو دُنیا بھر میں دکھا رہے ہیں، اور ہماری فلم انڈسٹری ماضی کا مزار بن گئی ہے۔ ہم آج بھی ”ثقافت“ کی افیون چاٹ رہے ہیں، اور بیچ رہے ہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran