کچھ ذکر ایران کا: چالاک سرکار انگلشیہ، دھوکے باز رضا پہلوی اور عربوں کی ذلت


رضا شاہ پہلوی 1941ء میں

رضا خان کا فوجی قبضہ توجنوبی ایران پر، جس کا واحد مالک شیخ بنا بیٹھا تھا، ہو ہی چکا تھا جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں۔ سول سروس کے لیے ایک گورنر بھی مقرر کر دیا گیا تھا۔ پس اس گورنر نے شیخ صاحب کے ساتھ دوستی پیدا کی، یہاں تک کہ ایک دوسرے کے جانی رفیق ہو گئے۔ اکٹھے کھاتے پیتے اور رات دن اسی جہاز میں رہتے تھے جو کہ شیخ خزعل کے محلات کے سامنے شط العرب میں کھڑا رہتا تھا۔ یہ جنگی جہاز سرکار انگلشیہ نے شیخ صاحب کو بطور تحفہ کے جنگ عظیم میں انگریزوں کی مدد کے صلے میں دیا تھا۔ ایک رات شیخ صاحب اور گورنر جنوبی ایران خوب شراب وغیرہ پی کر تاش کھیلنے میں مصروف تھے کہ اس علاقے کا فوجی جنرل مع چند کاسک کے ایک سفید رومال میں ہتھکڑی لے کر آ حاضر ہوا اور شیخ صاحب کے آگے رکھ کر کہنے لگا اعلیٰ حضرت نے آپ کے لیے خلعت بھیجا ہے۔ تب شیخ صاحب کی آنکھیں کھلیں اور گورنر صاحب کی طرف دیکھنے لگا۔ اف دھوکہ و فریب۔

گورنر نے ظاہری طور پر شیخ صاحب کی تسلی اور دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے جنرل صاحب کو کہا، یہ کیا گستاخی ہے۔ ادھر جنرل صاحب کے سپاہیوں نے اپنے ریوالور اور رائفلیں سیدھی کر لیں کہ خبردار اگر تم نے کوئی بھی چوں چرا کی تو گولی کا نشانہ بنا دیے جاؤ گے۔ اس وقت رات کا قریباً ایک بجا تھا۔ اس وقت گورنر صاحب نے شیخ صاحب سے اپنی بے بسی اور مجبوری ظاہر کی اور جنرل صاحب کا چپ چپاتے حکم ماننے کی التجا کی۔ ویسے تو گورنر اور جنرل کی ایک ہی صلاح تھی۔ ہر دو ایک ہی حکم کے تحت چل رہے تھے۔ لیکن یہ سب کارروائی شیخ کو قابو کرنے کے لیے کی گئی تھی۔ اگر اور کسی طرح شیخ صاحب کو گرفتار کرنے کے لیے ایران گورنمنٹ جنگ وغیرہ کرکے کوشش کرتی تو بہت مشکل تھا۔ شیخ صاحب کے پاس بے انتہا گولہ بارود اور اسلحہ تھا۔ کئی ماہ تک رضا خان کی گورنمنٹ کو لڑنا مرنا پڑتا۔

اہواز کی اشراف عورتیں

خیر قصہ مختصر، وہاں سے شیخ صاحب کو، مشکیں کس کر کہ بول یا شور نہ کر سکے، ملزم کی طرح آگے لگا کر کشتی کے ذریعے کارون دریا عبور کرکے تیل کی کمپنی کے گیرج سے ایک کار اور ڈرائیور کو لے کر راتوں رات ناصری اہواز پہنچا دیا جہاں پر ایرانی فوج کا ہیڈکوارٹر تھا۔ وہاں پر پہلے ہی شیخ صاحب کو طہران لے جانے کا بندوبست مکمل کیا ہوا تھا۔ پس شیخ صاحب ایک شاہی قیدی کی حیثیت میں طہران پہنچ گیا۔ لطف یہ کہ محامرہ میں شیخ صاحب کے محلات میں کسی کو بھی علم نہ تھاکہ جناب شیخ گرفتار ہو کر طہران تشریف لے گئے ہیں یا کہاں پر ہیں۔ جب انگلینڈ سے تار آیا کہ شیخ صاحب گرفتار ہو کر طہران پہنچ گئے ہیں تب شیخ صاحب کے لواحقین کو پتا چلا۔ اب سوائے کف افسوس ملنے کے کیا ہو سکتا تھا کیونکہ ایرانی سپاہی ہر طرف چھائے ہوئے تھے۔

 جب شیخ صاحب طہران بخیریت پہنچ گئے تب جناب رضا خان نے روبروئے شاہی مجلس شیخ صاحب کو بطور مجرم، باغی اور غدار کے پیش کیا۔ شیخ صاحب کے خلاف الزامات اور مقدمات بہت تھے اور ہر لحاظ سے ہر ایک میں سزائے موت تجویز ہوتی تو اس وقت برٹش گورنمنٹ کے سفیر یا دیگر کرتا دھرتا سد راہ بن جاتے ۔ التجا کرتے، یا دھمکیاں دیتے۔ لیکن وہاں پر اب کون پروا کرتا تھا۔ شکار اب ایرانی گورنمنٹ یعنی رضا خان کے ہاتھ میں تھا۔ بس صلاح مشورے کے بعد سزائے موت جرمانہ و تاوان میں تبدیل کر دی۔ اس طرح کل رقم جو کہ شیخ صاحب کی دیگر ممالک یا خود اس کے پاس تھی، ایک ایک کرکے خود ایرانی گورنمنٹ نے اپنے قبضے میں کر لی۔

اہواز میں گرل گائیڈ

ادھر شیخ صاحب کے محلات پر چھاپہ مار کر جو اسلحہ جنگ اور گولہ بارود تھا ایرانی فوج نے قبضے میں کر لیا۔ آخر کار بڑی مشکل اور سرکار انگلشیہ کی مہربانی سے شیخ صاحب کی جان بخشی ہوئی۔ چلو جان بچی سو لاکھوں پائے۔ اس کے بعد ایران گورنمنٹ نے شیخ صاحب کو حکم دیا کہ تم وطن واپس نہیں جا سکتے۔ یہاں پر بطور شاہی مہمان کے رہو اور حرم میں لڑکوں میں جس کو چاہو بلا لو، کسی ایک بیوی کو بلا لو اور باقی ماندہ خانماں کو طلاق یا رخصت دے دو۔ پس شیخ صاحب کو مجبوراً سب کچھ ماننا پڑا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے یا جیسے سنا گیا کہ ایک لڑکا شیخ صاحب کے پاس طہران چلا گیا اور بڑا لڑکا شیخ عبداللہ ایرانی فوج میں کپتان کا اعزازی عہدہ لے کر فوج میں چلا گیا۔ ایک ولایت یعنی انگلینڈ کو چلا گیا۔ اس طرح محامرہ والے شیخ کا انجام ہوا جو کہ بعد ازاں نظر بندی کی حالت میں طہران ہی میں راہی ملک عدم ہوا۔ واللہ اعلم۔ دعا ہے خدا بے چارے کے سبھی گناہ بخشے اور باقی ماندہ کو راہ ہدایت عطا کرے۔ آمین۔

اہواز 1950 کی دہائی میں

عربوں کی بغاوت

1926 ء کے وسط میں ایران کے عربوں نے رضا شاہ گورنمنٹ کے خلاف بغاوت کر دی اور چند ہزار عرب محامرہ شہر کو لوٹنے آ گئے۔ اس وقت ایرانی گورنمنٹ کی بہت تھوڑی فوج اور پولیس کے سپاہی محامرہ میں موجود تھے جو امپیریل بنک پرشیا کی حفاظت کرتے رہے اور مزید کمک کے لیے ناصری اہواز کو تار دیا کیونکہ ایرانی گورنمنٹ کا ہیڈکوارٹر ناصری اہواز میں تھا۔ چند گھنٹوں کے بعد فوجی کمک آ گئی ۔ فوج نے آتے ہی عربوں کو گولی کے آگے رکھ لیا۔ اس وقت ایرانی فوجی سپاہیوں نے یہ نہیں دیکھا کہ شورش کرنے والا کون ہے یا کون نہیں ہے۔ پس جس کو عربی لباس میں دیکھا گولی مار دی۔ یہاںتک کہ اگلے روز ایک کافی بڑا قبرستان محامرہ شہر کے مشرق کی جانب برسرراہ بصرہ بنا دیا گیا جو کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ بہت سے عربوں نے کوارٹروں میں چھپ کر جانیں بچائیں۔ ایرانی سپاہی عربوں سے اس قدر خفا تھے کہ عربوں کو جان سے مارنے میں ذر ا دریغ نہیں کرتے تھے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ آج پورے 1300 سال بعد عربوں پر ہم کو غلبہ نصیب ہوا ہے۔ اپنی پرانی دیرینہ دشمنی کا بدلہ عربوں سے لے کر اپنے دل کا غبار نکال رہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد عربوں کو دوبارہ شورش کرنے کا حوصلہ نہیں رہا اور بے چوں چرا رضا شاہ کی حکومت کو ماننے لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2