کروڑوں کی انتخابی مہم


دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کا بخار اس وقت سبھی کو اپنی لپیٹ میں لئیے ہوئے ہے۔ ٹی وی لگاؤ تو پیڈ کانٹینٹ دیکھو، خبروں میں سیاسی پارٹیوں کے لیڈران ایک دوسرے پر کیا کیچڑ اچھال رہے ہیں، کس کا پلڑا پری الیکشن سروے میں بھاری ہے کس کا نہیں، کس کو عدالتوں سے اپنے اپنے کیسز کی سماعت انتخابات کے بعد سنے جانے کی اجازت ملی ہے کس کو نہیں غرض کہ چاروں طرف انتخابی رنگ اپنے عروج پر ہے۔ لاہور کی سڑکیں بھی کسی رنگین کینوس کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔ درخت، کھمبے، دیواریں، برج سبھی سیاسی پارٹیوں کے اشتہاری بینرز، فلیکس اور سٹکروں سے رنگین ہوئے پڑے ہیں۔ جلسے، کارنر میٹنگز اور ان میں کھابے سب چل رہا ہے۔ یہ سب دیکھ کر کوئی بھی میرے جیسا انسان یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ گیم چند ہزاروں یا لاکھوں کی نہیں بلکہ کروڑوں کی ہے تو پھر الیکشن کمشن آف پاکستان کو یہ سب کیوں نظر نہیں آرہا؟ کیا ان کا ضابطہ اخلاق بھی صرف کاغذوں کی حد تک ہے یا ہم ان سے کسی ایکشن کی توقع کر سکتے ہیں جس میں بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دیا جاسکے؟

الیکشن کمشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق کے مطابق ایک امیدوار برائے قومی اسمبلی اپنی انتخابی مہم پر چالیس لاکھ جبکہ صوبائی اسمبلی کے لئے بیس لاکھ روپے تک خرچ کر سکتا ہے۔ اب ہوتا کچھ یوں ہے کہ امیدوار خود اپنی انتخابی مہم کے لئے تو رقم خرچ کرتا ہے مگر اس کے حمایتی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے، وہ بھی جیب کھول کر اشتہاروں کی شکل میں ان کو مکھن لگاتے ہیں تاکہ وقت آنے پر جیتنے والے سے اپنا الو سیدھا کروا سکیں۔ میرا خیال تھا کہ یہ جو ‘منجانب’ ہے ان کا خرچہ کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنتا اسی لئے انتخابی امیدوار الیکشن کمشن سے بچ نکلتا ہے مگر میں غلط تھی۔ پاکستان میں انتخابی عمل کو مانیٹر کرنے والے ادارے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ امیدوار خود یا اس کا کوئی سپورٹر مہم پر پیسہ خرچ کرے، اس کی حد بس وہی ہے جو الیکشن کمشن آف پاکستان نے مقرر کر دی ہے ( چالیس اور بیس لاکھ روپے)۔ اس سے اوپر جانے پر الیکشن کمشن چاہے تو امیدوار کو نااہل قرار دے سکتا ہے۔ مگر یہ سیاسی امیدوار بچ نکلتے ہیں کیونکہ الیکشن کمشن کے ضابطہ اخلاق میں کوئی بھی سیاسی پارٹی مجموعی طور پر انتخابی مہم پر کتنا خرچ کر سکتی ہے اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔

گذشتہ دنوں میں جو معلومات اکھٹی کی اور جو کچھ دیکھا اس کے مطابق تو یہ گیم لاکھوں کیا، کروڑوں روپے کی ہے۔

رائل پارک لکشمی چوک میں درجنوں پرنٹنگ پریس ہیں جو گذشتہ تین ہفتوں سے انتخابی مہم کی چھپائی کا کام کر رہے ہیں۔ یہاں جتنے پریس مالکان سے بات ہوئی ان کے مطابق اس بار انتخابات کا کام دو ہزار تیرہ کے انتخابات کی نسبت ذراکم ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ کہ الیکشن کمشن آف پاکستان نے فلیکس اور پوسٹرز وغیرہ کا سائز مقرر کر دیا دو بائی تین ۔ دوسرا یکم جولائی تک امیدواروں کے لئے ایک غیر یقینی صورتحال تھی کہ انہیں ٹکٹ ملے گی بھی یا نہیں۔ غلام حسین کہتا ہے کہ اس بار کام کم ہے، ” پہلے فلیکس بنانے والی مشینیں صرف شہر میں ہوتی تھیں مگر اب دیہاتوں میں بھی لگ گئیں جس کی وجہ سے چھوٹے علاقوں کا کام یہاں نہیں آتا ۔” حسین کہتا ہے کہ ایک امیدوار ہزاروں کی تعداد میں فلیکس چھپواتا ہے دس ہزار فلیکس اسے پڑتا ہے ساٹھ ہزار روپے میں اور وہ خود لاکھوں کی تعداد میں فلیکس چھاپ چکا ہے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی سڑکوں پر چلتی یہ بڑی بڑی گاڑیاں جن پر مختلف پارٹیوں کے ‘ہمیں ووٹ دو ‘کی دہائی والے پوسٹرز لگے ہیں گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ گاڑیاں امیدوار کی ذاتی ہیں؟ جی نہیں یہ گاڑیاں ہیں کرائے کی۔ نیاز احمد جو گاڑیاں کرائے پر دینے کا کاروبار کرتے ہیں ان کی بات سن کر تو دل کیا انتخابات کا بائیکاٹ کر دوں۔ نیاز نے بتایا کہ انتخابات کے دنوں میں زیادہ تر لینڈ کروزر اور ویگو ڈالا( جس میں سکیورٹی گارڈ بیٹھتے ہیں) کرائے پر لیا جاتا ہے۔ گذشتہ ماہ تو ان میں سے ایک گاڑی کا کرایہ تیں،ساڑھے تین لاکھ روپے ماہانہ تھا مگر اب جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں گاڑیوں کا کرایہ بھی بڑھ گیا ہے۔ اب ایک لینڈ کروزر یا ویگو کا کرایہ ہے ماہانہ ساڑھے چھ لاکھ روپےاور ایک امیدوار کم سے کم دو گاڑیاں تو ضرور کرائے پر لے رہا ہے۔اور زیادہ سے زیادہ پانچ سے دس گاڑیاں۔ اب کیا کریں ہمارے لیڈران کی یہ نفسیات ہے کہ جب تک قافلے میں ان کے آگے پیچھے بڑی گاڑیاں نہ چل رہی ہوں انہیں اپنی اہمیت کا خود بھی اندازہ نہیں ہوتا۔

اب آگے چلئیے اور یہ سنئیے۔ ٹی وی آن کریں تو کبھی مسلم لیگ ن پنجاب کا موازنہ خیبر پختونخواہ سے کرتی دکھائی دیتی ہے تو کبھی پاکستان تحریک انصاف کے پی کے کو پنجاب سے بہتر گردانتی ہے اسی طرح پیپلز پارٹی بھی سندھ میں اپنی بہترین کارکردگی کے جھنڈے گاڑتی ہے۔ حیرت ہے پاکستان کی بات کوئی نہیں کرتا۔ خیر یہ پیڈ کانٹینٹ ہے جو تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ٹی وی چینلز کا پیٹ بھر رہا ہے۔ کچھ چینلز کو تو یہ اشتہار ڈائٹ فوڈ کی طرح دیے جارہے ہیں، ایکسپریس نیوز کے مارکیٹنگ افسر آغا طاہر کہتے ہیں کہ ٹائر ٹو کے چینلز کو ان اشتہاروں کے پیک آورز یا آف پیک آورز دونوں میں کم ہی ریٹ دیا جا رہا ہے مگر بڑے اور مشہور چینلز جو ایک برینڈ بن چکے ہیں وہ پیک آوورز میں ایک منٹ کے پیڈ کانٹینٹ کو چلانےکے ڈیڑ ھ سے دو لاکھ روپے لے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمشن کو یہ سب کیوں دکھائی نہیں دیتا کہ یہ انتخابی مہم کیا چالیس یا بیس لاکھ روپے کے مقرر کردہ ضابطہ اخلاق کے اندر ہے؟

پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کے لئے بھی یہ صورتحال بڑی تشویش ناک ہے۔ ان کے خیال میں الیکشن کمشن آف پاکستان کو انتخابی مہم پر ہونے والے پارٹی اخراجات پر کڑی نظر رکھنی چاہئیے اور خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہئیے۔ محبوب کا خیال ہے ” ہر امیدوار اپنی انتخابی مہم پر کروڑوں لگا رہا ہے جب وہ اسمبلی میں جائے گا تو وہاں سے وہ اپنے یہ کروڑوں پورے کرے گا اور صرف یہ ہی نہیں، آئیندہ آنے والے انتخابات کا خرچہ بھی اسی اسمبلی میں بیٹھ کر جوڑے گا۔ اور یہاں سے شروع ہوتی ہے بنیادی کرپشن۔” ان کے خیال میں ابھی بھی وقت ہے الیکشن کمشن انتخابی امیدواروں سے ان کی مہم کے اخراجات پر خرچ ہونے والی ایک ایک پائی کا حساب لے تاکہ آئیندہ ایسی فضول خرچی پر قابو پایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).