پانامہ پیپرز۔۔ سات سوالوں کا پرچہ آؤٹ


\"edit\"وزیراعظم جمعہ کو جب قومی اسمبلی میں پاناما پیپرز کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرنے آئیں گے تو اس موقع پر متحدہ اپوزیشن ان سے سات آسان سوال پوچھے گی۔ اس حوالے سے آج سینیٹر اور بیرسٹر اعتزاز احسن کے دفتر میں تفصیلی ملاقات کے بعد یہ سوال تیار کئے گئے ہیں۔ شروع میں خبر تھی کہ اپوزیشن 5 سوال تیار کر رہی ہے لیکن لگتا ہے بحث مباحثہ میں دو سوالوں کا اضافہ کر دیا گیا۔ لیکن وزیراعظم اور سرکاری ٹیم کی سہولت کے لئے اپوزیشن نے کمال مہربانی سے امتحان سے پہلے ہی سوال نامہ جاری کر کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ وہ حکومت سے کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتے۔ اب آسان سی بات ہے کہ ان سات آسان سوالوں کا جواب دے کر وزیراعظم سرخرو ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس میں قباحت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی صرف سوالوں کے درست جواب ہی نہیں مانگتے بلکہ وہ اس بات پر مصر ہیں کہ عدالتی کمیشن تو قائم ہو گا اور کرپشن کی تحقیقات بھی ہوں گی۔ اسی لئے حکومت نے بھی یہ سوال سامنے آنے کے بعد جواب تیار کرنے کی بجائے خود بھی ایک سوال نامہ تیار کر کے اپوزیشن سے جواب طلب کر لیا ہے۔

اپوزیشن نے اگرچہ وزیراعظم کے ساتھ رعایت برتتے ہوئے امتحانی پرچہ ”لیک“ کر دیا ہے لیکن اگر وہ تھوڑی سی مہربانی مزید کرتی اور ان سوالوں کا جواب بھی ساتھ ہی فراہم کر دیتی تو وزیراعظم اور ان کے رفقا کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ سوال سارے غلط تھے، جواب کیا دیتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ طلال چوہدری اور دانیال عزیز کی نگرانی میں منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں سرکاری ٹیم نے بھی واضح کیا ہے کہ امتحان ہو گا تو اپوزیشن کو بھی اس سے گزرنا ہو گا۔ وزیراعظم سوالوں کے جواب دیں گے تو اپوزیشن کو بھی ان کے سوالوں کا جواب دینا پڑے گا۔ البتہ سرکاری ٹیم کے جیالوں نے زیادہ مشکل ڈالنے کی بجائے صرف تین سادہ سوال کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ مختصر سوال اپوزیشن کے بھاری بھر کم سات سوالوں پر بھاری ہیں۔ بلکہ اگر وہ ان سوالوں کا جواب دے سکیں تو انہوں نے جو سوال وزیراعظم سے کرنے کا اعلان کیا ہے، ان کا جواب انہیں از خود مل جائے گا۔ ہم تو اپوزیشن کی طرح حکومت سے بھی یہی اپیل کر سکتے ہیں کہ وہ بھی اپنے سوالوں کے ساتھ جواب بھی فراہم کر دیتی تو دیکھنے اور سننے والوں کا بھلا ہوتا کیونکہ گزشتہ 5 ہفتوں کی الزام تراشی اور دشنام طرازی کے بعد یہ بات تو سب خوب جان چکے ہیں کہ اپوزیشن اور حکومت کے سارے جغادری ایک دوسرے کی نیتوں کا حال خوب جانتے ہیں۔ جس طرح ان نیتوں کا حال سات اور تین سوالوں کی صورت میں بتانے کی کوشش کی گئی ہے، اسی طرح وہ پریس کانفرنس اور ٹاک شوز میں بھی یہ احوال فاش کرتے رہتے ہیں۔ مفاد عامہ اور کم فہم لوگوں کی سہولت کے لئے اسے ایک فقرے میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ : ”آپ بدنیت اور بے ایمان ہیں“۔

جس ملک کی اپوزیشن حکومت کے بارے میں اور حکومت اپوزیشن کے بارے میں یہ خیالات رکھتی ہو۔ اور اصل طاقت کا محور دونوں کے بارے میں تقریباً ایسی ہی رائے رکھتا ہو، اس ملک میں دنگل تو جاری رہے گا۔ اس لئے جو لوگ اس بات پر خوش ہو رہے تھے کہ وزیراعظم بفنس نفیس جمعہ کو قومی اسمبلی میں آ کر پاناما پیپرز کے بارے میں ساری تفصیل معزز ایوان کو بتا دیں گے، انہیں خبر ہو کہ اپوزیشن کو تو یہ پہلے ہی پتہ تھا۔ ایوان کے بعض معزز ارکان چونکہ یہ تقریر ہونے سے پہلے ہی اس کا متن جانتے ہیں، اسی لئے انہوں نے جمعہ کا انتظار کرنے اور تقریر سننے میں وقت ضائع کرنے کے بعد عجلت میں سوال کرنے کی بجائے قبل از وقت ہی ”ہوم ورک“ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے امتحانی پرچہ تیار کر لیا ہے۔ ان سوالوں کو پڑھ کر یہ اندازہ تو کیا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن نے حکمرانوں کی نیتوں کا حل جاننے کی صلاحیت بروئے کار لاتے ہوئے پتہ چلا لیا ہے کہ نواز شریف قومی اسمبلی میں تقریر تو ضرور کریں گے لیکن وہ ان سوالوں کو گول کر جائیں گے جن کے جواب اپوزیشن کو درکار ہیں۔ اسی طرح حکومت کے نمائندوں کو بھی ویسی ہی ”دل کا حال جاننے“ کی صلاحیت کی بنا پر یہ القا ہو چکا ہے کہ اپوزیشن معاملات طے کرنا نہیں چاہتی بلکہ سوالوں کا بکھییڑا کھڑا کر کے معاملات خراب کرنا چاہتی ہے۔ اس لئے انہوں نے بھی فوری طور سے تین سوال جڑ دئیے۔ تا کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اگر اپوزیشن حکومت کو ”بے ایمان اور دھوکے باز“ سمجھتی ہے تو حکومت کا بھی اپوزیشن کے بارے میں کچھ ایسا ہی خیال ہے۔

اس صورتحال میں جب جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہو گا تو کیا ہو گا؟ وزیراعظم اپنی بہترین واسکٹ پہن کر آئیں گے اور اس کی ایک جیب میں ہاتھ ڈال کر اسپیکر سے اپنی گزارشات پیش کرنے کی اجازت مانگیں گے لیکن اپوزیشن اجازت ملنے، تقریر شروع ہونے اور حرف مدعا زبان پر آنے سے پہلے ہی پکارے گی: ”ہمارے سوالوں کے جواب دو“۔ اسی بحرانی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے دانیال عزیز اور طلال چوہدری نے چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیش بندی کے طور پر جوابی تین سوال تیار کر لئے ہیں۔ لہٰذا تصور کیجئے۔ وزیراعظم تقریر کرنے کے لئے گلا صاف کر رہے ہیں اور بے بسی سے اپوزیشن کے خاموش ہونے کا انتظار کر رہے ہیں لیکن وہاں سے ”سوالوں کے جواب دو“ کی صدا آ رہی ہے۔ اب سچ تو یہ ہے کہ بھئی آپ خاموش ہوں تو جواب دیا جائے۔ وقت کے ساتھ مطالبوں کی رفتار بھی اتنی تیز ہے کہ کسی کے پاس دوسرے کی بات سننے کا وقت نہیں ہے۔ ابھی اپوزیشن کا زور کم نہیں ہو گا کہ سرکاری بنچوں سے سہ نکاتی سوال نامے کا جواب طلب کرنے کا شور بپا ہو سکتا ہے۔ انہیں تو وزیراعظم ایک اشارے سے چپ کروا سکتے ہیں لیکن اپوزیشن کو خاموش کروانے کی کنجی ان کے پاس نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کی خواہشوں کا تالہ ایک آدھ وزارت ملنے سے نہیں کھل سکتا۔

یوں بھی وزارت کے حصول کے لئے جو مشقت کرنا پڑتی ہے، اس کا حال کوئی دانیال عزیز، طلال چوہدری اور مشاہد اللہ خان سے پوچھے۔ انہوں نے وزیراعظم اور ان کے خاندان کے ”مفادات“ کی حفاظت کرنے کے لئے گزشتہ ہفتوں میں جو شبانہ روز محنت کی ہے، خبر ہے کہ اب اس کا اجر ملنے والا ہے۔ ہو سکتا ہے جمعہ کا شو کامیاب ہونے کے بعد ہی وزیراعظم اعلان کر دیں کہ ان تینوں نونہالوں کو وزارتیں عطا کی جاتی ہیں کہ انہوں نے وزیر کی کرسی، گاڑی اور مراعات نہ ہونے کے باوجود حق خدمت ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اسی اعلان میں ان وزیروں کی گوشمالی بھی ہو سکتی ہے جنہوں نے اس مشکل وقت میں وزیراعظم کی وکالت کا فریضہ ادا کرنے کی بجائے اپنے کام سے کام رکھا اور کسی ٹاک شو میں جا کر مخالفین کے پاﺅں کے نیچے سے زمین ہلانے کی کوشش کر کے نواز شریف کا جی راضی نہیں کیا۔ ان محروموں میں سرفہرست ماروی میمن کا نام ہے جو بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کی نگران بننے کے باوجود وزیراعظم کی مدد کو نہیں آئیں۔

جن لوگوں کو ابھی تک اپوزیشن کے سوالوں اور حکومت کے جوابی سوالوں کی تفصیل نہیں پہنچی ان کی سہولت اور تشفی کے لئے انہیں یہاں درج کرنا ضروری ہے۔ اپوزیشن کے سوال یہ ہیں:

1) وزیراعظم بتائیں کہ لندن کے چار فلیٹ کب خریدے گئے اور اس کی رقم کیسے ادا کی۔ کیا اس رقم پر ٹیکس ادا کیا گیا۔

2) لندن کی پراپرٹی کے بارے میں کلثوم نواز ، برطانیہ کا اخبار انڈیپینڈنٹ ، چوہدری نثار علی خان اور حسن نواز مختلف وقتوں میں متضاد بیان دیتے رہے ہیں، وزیراعظم ان کی صراحت کریں۔

3) لندن کے فلیٹ کب سے وزیراعظم کے زیر استعمال ہیں۔ برطانیہ کی ہائیکورٹ نے 1998 میں اس پراپرٹی پر التوفیق کمپنی کا دعویٰ مانتے ہوئے شریف خاندان کو 32 ملین ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ رقم کیسے ادا کی گئی۔ کیا وزیراعظم جانتے ہیں کہ اس پراپرٹی پر سوئزر لینڈ کے ایک بینک سے قرض بھی لیا گیا تھا۔

4) یہ بتایا جائے کہ وزیراعظم یا ان کے اہل خاندان کتنی آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ ان کمپنیوں کے اثاثے، مالیت اور بینک اکاﺅنٹ کی نوعیت کیا ہے۔ سب تفصیل بتائی جائے۔

5) 1985 سے اب تک وزیراعظم یا ان کے خاندان کے کسی رکن نے کون کون سی کمپنی خریدی۔ اور یہ کمپنیاں خریدنے کی رقم کیسے ادا کی گئی۔ کیا اس رقم پر ٹیکس ادا کیا گیا تھا۔

6) کیا یہ بات وزیراعظم کے علم میں ہے کہ ان کے بیٹے اور بیٹی اتفاق شوگر ملز اور چوہدری شوگر ملز کے بڑے حصہ دار رہے ہیں۔ کیا اس آمدنی پر ٹیکس ادا کیا گیا۔ کیا آف شور کمپنیوں سے حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس ادا کیا گیا۔

7) وزیراعظم اور ان کے سارے اہل خاندان نے 1985 سے 2016 تک کتنا ٹیکس ادا کیا ہے۔ ہر فرد کی سال بہ سال ٹیکس ادائیگی کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔

حکومت کی ترجمانی کرنے والوں نے ان سوالوں کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔ نہ جانے اس اعتراض کی کیا وجہ ہے۔ لیکن سرکار کے تین سوال بھی جان لیتے ہیں۔ شاید جواب مل جائے:

1) کیا اپوزیشن بتا سکتی ہے کہ کیا وزیراعظم کا نام پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی معلومات کے مطابق کسی کمپنی کے مالک کے طور پر موجود ہے۔

2) اپوزیشن نے تحقیقاتی کمیشن کے لئے جو قواعد یا TORs تجویز کئے ہیں ان میں قرضے معاف کروانے والوں اور کمیشن کھانے والوں کے خلاف تحقیقات کی شق کیوں شامل نہیں کی گئی۔

3) اپوزیشن وزیراعظم سے 1985 سے حساب مانگ رہی ہے لیکن اس سال سے پہلے ہونے والی بدعنوانیوں کا حساب کیوں طلب نہیں کیا گیا؟ کیا ان میں کچھ پردہ داروں کے نام آتے ہیں۔

ہمیں یقین ہے کہ اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کی طرف سے جواب ملنے کے بعد بھی کسی صورت انہیں قبول نہیں کریں گی بلکہ انہیں غلط اور گمراہ کن قرار دیا جائے گا۔ اس لئے یہی بہتر ہے کہ اپوزیشن اور سرکار اپنے اپنے سوالوں کے جواب بھی خود ہی عطا کر دیں تا کہ عام آدمی کا بھلا ہو سکے۔ بصورت دیگر یہ آپشن تو موجود ہے کہ جو سوال دوسروں سے پوچھے جا رہے ہیں، وہ خود سے ہی پوچھ لئے جائیں اور اگر مناسب جواب موجود نہ ہو تو خاموشی اختیار کی جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali