طالبان کے ساتھ مذاکرات کی شروعات


دیر آید درست آید! امریکی حکام طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بساط بچھانے کی راہ پر گامزن ہیں تاکہ سترہ برس سے جاری جنگ کا خاتمہ کیا جاسکے۔ سوال یہ ہے کہ اس ماہیت قلبی کے اسباب کیا ہیں؟

تمام تر دباؤ اور لالچ کے باوجود طالبان نے مزاحمت جاری رکھی اور امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے مطالبے پر ڈٹے رہے۔افغانستان کی حکومت تمام تر کوششوں کے باوجود طالبان کے ساتھ مذاکرات کا بند دروازہ کھول سکی اور نہ ہی انہیں میدان جنگ میں شکست سے دوچار کرپائی۔

اعداد وشمار کے مطابق محض گزشتہ چھ ماہ میں لگ بھگ سترہ سو شہری طالبان اور افغان حکام کے مابین جاری تصادم یا بم دھماکوں میں ہلاک ہوئے۔افغانستان کے کل 407 اضلاع ہیں ۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق59پر مکمل طور پر طالبان کا کنٹرول ہے۔

119ایسے ہیں جن پر حکومت اور طالبان کا مشترکہ کنٹرول رہتاہے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو تمام تر حربی طاقت کے استعمال اور وسائل صرف کرنے کے باوجود مکمل فتح اور طالبان کی شکست کے امکانات نظر نہیں آتے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جلدی نتائج چاہتے ہیں تاکہ وہ امریکی رائے عامہ کو دکھاسکیں کہ جو کام جارج بش اور بارک اوباما جیسے جہاندیدہ صدرنہیں کرسکے انہوں نے کردکھایا اور امریکی فوجی اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔

صدر ٹرمپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے ۔وہ افغانستان سے فوجیں نکالنے کو بے تاب ہیں۔ صدر ٹرمپ کی خوبی یہ ہے کہ وہ طرز کہن پر اڑتے نہیں۔ حکمت عملی کی ناکامی کے اعتراف سے گھبراتے نہیں ۔ان کے حکم پر امریکہ کے وزیرخارجہ مائیک پومپیونے جولائی کے دوسرے ہفتے میں کابل کا دورہ کیا جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی کو اپنی حکومت اور خاص کرصدر ٹرمپ کی فرسٹریشن سے آگاہ کیا ۔

انہیں بتایاکہ امریکہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا ڈول ڈالنے جارہاہے۔ نہ صرف وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں بلکہ عالمی فورسز کی افغانستان میں موجودگی کے سوال پر بھی گفتگوکے لیے رضامند ہیں۔ امریکہ کایہ اعلان بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ قطر طالبان آفس کے ایک اہلکار نے الجزیزہ کو بتایاکہ وہ اس لمحے کا کئی برسوں سے انتظار کررہے تھے۔

باقاعدہ مذاکراتی عمل شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ طالبان لیڈروں کو نقل حمل اور آزادانہ سفر کی اجازت دی جائے۔ غالباًقطر آفس اس سلسلے میں کلیدی کردار کا حامل ہوگا۔ امریکیوں کو یہ بھی خطرہ ہے کہ اگر افغانستان میں سیاسی استحکام نہ آیا تو یہ صرف اس کی سیاسی اور سفارتی ناکامی تصور نہیں کی جائے گی بلکہ علاقائی طاقتیں اس سے فائدہ اٹھانے کے درپے ہیں۔

رفتہ رفتہ کھیل اس کے ہاتھ سے نکل رہاہے۔حال ہی میں روس، چین، ایران اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے سربراہوں کی اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات ایک بہت ہی غیر معمولی اور تاریخی واقعہ ہے۔جو خطے کی تزویراتی ماحول میں تبدیلی اور نئے علاقائی اتحاد کے قیام کے لیے کی جانے والوں کوششوں کا اظہار کرتاہے۔اس اجلاس کا مرکزی موضوع بھی افغانستان تھا۔

2015ء میں روس ،چین، ایران اور پاکستان کا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب انہیں احساس ہوا کہ شام اور عراق سے پسپا ہونے کے بعد داعش افغانستان میں جڑ پکڑ رہی ہے۔کئی گروہ مختلف راستوں سے افغانستان میں داخل ہوچکے تھے ۔خاص کر وسطی ایشیائی ریاستوں کے زمینی اور فضائی راستوں کو استعمال کیا جارہاتھا۔ روس اور ایران کے خفیہ اداروں کی اطلاعات تھیں کہ مغربی ممالک داعش کو شام اور عراق سے نکالنے اور اسے افغانستان کا رخ کرنے میں سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔

افغانستان میں داعش نے آتے ہی طالبان کے سخت گیر نقطہ نظر رکھنے والے عناصر کو گھیرنا شروع کردیا۔ کئی ایک طالبان کمانڈر اور نوجوان داعش کی سیاسی فکر سے متاثر ہوکر اس کا حصہ بن گئے۔ دونوں گروہوں کے مابین کئی ایک جھڑپیں بھی ہوئیں۔

حال ہی میں بھی کئی ایک طالبان جنگجو داعش کے ہاتھوں مارے گئے۔ طالبان لیڈرشپ کو محسوس ہوا کہ داعش ان کی صفوں میں سرنگ لگانے کے درپے ہے۔ اس پس منظر میں طالبان لیڈرشپ کو بھی احساس ہوا کہ وقت ان کے ہاتھ سے پھسل رہاہے۔ طالبان نے علاقائی طاقتوں بالخصوص روس اور چین کے ساتھ سفارتی روابط مضبوط بنانے اور مشترکہ طور پر داعش کے خلاف لڑنے کی حامی بھری ۔

افغان حکومت اور طالبان دونوں کو بھی احساس ہوا کہ اگر خطے میں داعش کو غلبہ حاصل ہوگیا تو وہ طالبان اور سرکار دونوں کے لیے یکساں طور پر تباہ کن ہوگا۔اس طرح داعش علاقائی ممالک، افغان حکومت اور طالبان کے مشترکہ دشمن کے طور پر ابھری۔

افغانستان کے اندر بھی طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے اعلان کو کافی پذیرائی حاصل ہوئی ۔ ہائی پیس کونسل نے اس کا خیر مقدم کیا ۔ صدر اشرف غنی پہلے ہی تعاون کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔ شہری اور معاشرے کے فعال طبقات بھی تشدد اورتناؤ کے ماحول سے عاجز آچکے ہیں۔

پاکستان جو پہلے ہی دومرتبہ طالبان اور افغان سرکار کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کراچکا ہے نہ صرف اس پیش رفت سے خوش ہے بلکہ تعاون کے لیے تیار بھی ۔ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ خراب تعلقات کو بہتر بنانے کا ایک سنہری موقع ملنے کا ایک امکان پیدا ہوگیا۔

علاوہ ازیں افغانستان کا استحکام پاکستان کے اندر بھی امن کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرتاہے۔ نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس ویلز نے حالیہ چند ماہ کے دوران متعدد مرتبہ پاکستان اور افغانستان کے طویل دورے کیے۔

انہوں نے افغان میڈیا اور ٹیلی وژن چینلز کے ساتھ بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ اپنے حالیہ دورے میں انہوں نے حز ب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یارکے ساتھ کابل میں ملاقات کی جو کہ ایک بہت بڑی پیش رفت مانی جاتی ہے۔ طالبان کو پیغام دیا گیا کہ اگر وہ مفاہمت کی سیاست کریں تو انہیں بھی حکمت یار کی طرح قومی دھارے میں خوش دلی کے ساتھ قبول کیا جاسکتاہے۔

امریکی کے اتحادی سعودی عرب بھی افغانستان کے حوالے دوبارہ سرگرم ہورہاہے۔ اوآئی سی اور سعودی حکومت نے مشترکہ طور پر مکہ مکرمہ میں افغانستان پر علما کی ایک دوروزہ کانفرنس کرائی۔اس کانفرنس میں متفقہ طور پر افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کی کوششوں پر زور دیاگیا۔اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ افغانستان میں فریقین جنگ بندی پر آمادگی کا اظہار کریں اور تشدد، تفرقے اور بغاوت کی مخالفت کرتے ہوئے اسلامی اقدار کے تناظر میں امن مذاکرات کا آغاز کریں۔

علما نے کہا: ہم افغان حکومت اور طالبان پر جنگ بندی اور براہ راست مذاکرات کیلئے زور دیتے ہیں۔بعد ازاں جمعہ کی نمازمیں ا فغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے اجتماعی دعا کرائی گئی۔اس طرح سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے اپنا وزن مکمل طور پر جنگ کے خاتمہ کے پلڑے میں ڈال دیا ۔

امریکہ کے موقر روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ غیر مشرط مذاکرات شروع کررہاہے۔ بتدریج افغان اور پاکستانی حکومت کو بھی مذاکراتی عمل میںشامل کیاجائے گا تاکہ پیس پراسیس کو زیادہ جامع اور کثیر الجہت بنایاجاسکے۔

امید کی جاتی ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے شروع کی جانے والی کوششوں کا انجام بالخیر ہوگا۔اس سال اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن سے پہلے اگر مذاکرات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جاتا ہے تو طالبان کو افغانستان میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا بھی موقع مل سکتاہے۔

 

بشکریہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood