اب صرف عمران خان


پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی تین تین وفاقی اور متعدد صوبائی حکومتوں کے بعد ملک ایک بار پھر عام انتخابات کے قریب ہے۔سوشل میڈیا کے باعث اس بار انتخابی گہما گہمی اور بحث و مباحثے سابقہ انتخابات سے زیادہ ہیں.

تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے، اپنے آپ کو نظریاتی اور انقلابی رہنما کہلانے کے شوقین نواز شریف اس وقت بیٹی اور داماد سمیت اڈیالہ جیل راولپنڈی میں اپنی قید کاٹنا شروع کر چکے ہیں۔ملک کو ایٹمی قوت عطا کرنے کے دعوے سے شروع ہونے والی نواز شریف کی مزاحمتی تحریک خراب لیٹرین اور سڑے ہوئے قیمے کی کہانیوں تک پہنچ چکی ہے۔

 فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دینے والے آصف علی زرداری ملک میں واپس آنے کے بعد، فوج کے ساتھ الیکشن 2018 کے لیے کی جانے والی ساز باز کی تمام تر کوششوں کی ناکامی کے بعد ایک بار پھر اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ 2018 میں وفاقی حکومت بنا لیں گے یا جو بھی بنائے گا وہ ان کے در پر ضرور آئے گا.

پچھلے ہفتے دہشت گردی کے دو بڑے واقعات میں ہارون بلور اور سراج رئیسانی سمیت سینکڑوں پاکستانیوں کی شہادت پوری قوم کو سوگوار کر چکی ہے.

جنرل الیکشن 2018 کی اس پوری صورتحال میں سب سے زیادہ توجہ جس سیاستدان پر مرکوز ہے وہ عمران خان ہے.

2013 کی انتخابی مہم کی طرح اس بار بھی عمران خان ایک ماہ میں 130 سے زائد عوامی اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں۔ پچھلی بار انتخابات سے چند دن قبل لفٹر سے گرنے پر اسپتال میں داخل ہونے والا کپتان اس بار الیکشن ڈے پر اپنے کھلاڑیوں کا ساتھ دینے کے لیے موجود ہوگا.

فوج پر عمران خان کی حمایت کے الزامات لگائے جا رہے ہیں لیکن عمران خان اور فوج اس کی سختی سے تردید کر چکے ہیں اور ویسے بھی الزامات لگانے والوں کے پاس ابھی تک کوئی ایک بھی ناقابل تردید ثبوت موجود نہیں ہے.

‘دو نہیں ایک پاکستان’ کا نعرہ لیکر انتخابی میدان میں آنے والی پاکستان تحریک انصاف اس وقت ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن چکی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس بار وزیر اعظم عمران خان ہی ہوں گے.

اس الیکشن میں خاص بات بڑی تعداد میں موجود نوجوان ووٹرز ہیں جو موروثی اور مک مکا کی سیاست سے علیحدہ رہ کر ایک ایسے پاکستان کو بنتا دیکھنا چاہتے ہیں جہاں سرے محل اور ایون فیلڈ سے زیادہ توجہ غریب عوام پر دی جا سکے۔ نوجوان ایک ایسا معاشرہ دیکھنا چاہتے ہیں جو ظلم اور زیادتی سے پاک ہو، جہاں صحت، تعلیم اور انصاف ہر شہری کو میسر ہو۔ عمران خان کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے نوجوان ووٹرز کو اپنے تبدیلی کے سحر میں جکڑے رکھا ہے اور آج پورے پاکستان کے نوجوانوں کی آخری امید عمران خان ہی ہے۔

اور ویسے بھی اب ایک بار عمران خان کو آزمانے میں کوئی قباحت نہیں کیوں کہ یہ ملک صرف شریفوں اور زرداروں کی ذاتی ملکیت تو ہے نہیں جہاں صرف انہیں اور ان کے بچوں کو ہی مقدس سمجھ کر بار بار اقتدار سونپا جاتا رہے.

تقریباً 76 لاکھ ووٹ لینے والی پی ٹی آئی پچھلے عام انتخابات کے دوران ملک کی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری اور اس بار مزید بڑے ناموں کی شمولیت نے اس پارٹی کے نمبر ون آنے کے امکانات میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے.

یہاں عائشہ گلالئ اور ریحام خان کا تذکرہ بھی ضروری ہے جنہوں نے عمران کی ذاتیات پر حد درجہ کیچڑ اچھالا لیکن عمران کی مقبولیت بجائے کم ہونے کے مزید بڑھ چکی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ نوجوانوں کو اس ملک کی وہ سیاست یاد ہے جہاں بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی جعلی اور قابل اعتراض تصاویر فضا سے شہروں پر گرائ جاتی رہی ہیں.

عمران خان کے ٹائیگرز اور ٹائیگریسز اس وقت میدان میں اترے ہوئے ہیں اور سب کا ایک ہی نعرہ ہے کہ اب صرف عمران خان!!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).