الیکشن یا سلیکشن


کہیں دور لکھا جاچکا ہے، سلیکشن ہو چکی ہے، سلیکٹ ہونے والون کے چمکتے چہرے بتارہے ہیں کہ اگلا فرمانروا کون ہوگا۔ پھر یہ الیکشن کا ڈھونگ کیوں، اتنا پیسہ خرچ ہورہا ہے پھر یہ ڈمی الیکشن کس کام کے، الیکشن کمیشن بھی نظریں چرا رہا ہے۔ ویسے ایک بات ہے سب کو آزمایا جا چکا ہے اب ایک ہی بچا ہے جس کو آزمانا ہے ویسے آزمانے کی ضرورت کیوں پیش آرپی ہے بہت سے مقامات پر آزمایا ہوابندہ آنکھوں کا تارا بنا ہوا ہے۔ قوم پر جان لیوا وقت تھا اے پی ایس کا سانحہ اور شادی کے شادیانے بجائے گئے۔ پاکستان کے تاریخی دھرنے کو یو ٹرن پر ختم کرکے دھرنے کے شرکاء کا مذاق اڑایا گیا۔ اپنے ساتھ نوجوان نسل کو لے کر چلنے کے ساتھ ان کے دماغوں میں امید کے ہزاروں چراغ روشن کرنے کے بعد بڑی تعداد میں لوٹوں کو جمع کر کے الیکشن میں کھڑا کرکے الیکٹیبلز کا نام دینا الیکشن کی حکمت عملی ہے یس سلیکشن کا شاخسانہ۔ آج پوری قوم جس امید کے دامن کو پکڑ کر ساتھ دے رہی ہے کہیں یہ دامن تار تار نہ ہوجائے اور نوجون نسل ضبط کا بندھن توڑ بیٹھے۔ ویسے مثل مشہور ہے نائی نائی بال کتنے آگے ہی آئیں گے۔ اگر یہ نوجوان مایوس ہوا تو اس زبان میں بات کرے گا جس میں اس کی تربیت کی گئی ہے کہ ہاتھ گریبان پہ اور لاتوں ٹھڈوں کا استعمال آزادانہ۔

احتساب کے نام پہ مختلف حربے آزمائے جارہے ہیں، چوروں کا حساب چکتا کریں لیکن بلا امتیاز، اپنے پسندیدہ چوروں کو چھوٹ کیوں دی جارہی ہے، انھیں بھی سزا دی جائے ان کے خلاف ثبوت ہیں لیکن اپنی مرضی سے چلانے کا ارادہ ہے۔ کلعدم جماعتوں کو بھی کھلی چھوٹ ہے الیکشن میں حصہ لینے کی تاکہ بہ وقت ضرورت ان کو اپنی مرضی سے استعمال کیا جاسکے ویسے ان کے سر پر بڑوں کا ہاتھ ہے دھرنا ختم کرنے پر خرچہ پانی دینے کا مظاہرہ تو سامنے کی بات ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر تجارتی حب کراچی کو چوں چوں کا مربہ بناکر سب خوش ہیں، سب سے پہلے مردم شماری میں اس کی آبادی کو کم کردیا گیا، پھر حلقہ بندیاں اپنی مرضی سے کروا کر کراچی کا ووٹ بنک تقسیم کیا گیا، کراچی میں کوئی جماعت واضح اکثریت میں نہیں آئے گی، کراچی میں سیٹوں کی بندر بانٹ ہوچکی ہے جس سے کراچی میں حکمرانی کا خواب پورا ہو جائے گا، لیکن کراچی کو نظر انداز کرنے والے خواب غفلت میں ہیں شاید انھیں معلوم نہیں کراچی سکون نہ ہوگا تو پورا ملک بھی سکون کی نیند نہ سوع سکے گا۔ کراچی تو پاکستان کی اے ٹی ایم مشین مشین ہے یہ خراب ہوگئی تو نو عیش نو کیش۔

حقوق انسانی کمشن نے انتخابی عمل میں مخصوص سیاستدانوں پر یک طرفہ انتقامی کارروائیوں اور میڈیا کے دباؤ کے حربوں سے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے واقعات سے چیف الیکشن کمشنر کو آگاہ کردیا ہے۔ حقوق انسانی کمیشن کی قیادت حنا جیلانی کر رہی ہیں۔ حقوق ِ انسانی کمیشن نے انتخابات میں مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے کھلی اور جارحانہ مہم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق سکیورٹی فورسزکو غیر معمولی اختیارات دینےپر گہرے تحفظات پائے جاتے ہیں، ساڑھے تین لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کو پولنگ اسٹیشنز کے اندر متعین کیا جارہا ہے اور سکیورٹی اہلکاروں کو مجسٹریٹ کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ جس سے انتخابی عمل کے دوران سویلین اور غیر سویلین ذمہ داریوں میں ابہام پیدا ہوجائے گا۔ عوام کو چاہیے اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر دیں اور نگراں الیکشن کو الیکشن رہنے دیں سلیکشن نہ بننے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).