جب جنسی ہراس کی ’حمایت‘ کا بے تکا جملہ الٹا پڑ گیا


پاکستانی فلم اور گلوکار علی ظفر کی فلم ‘طیفا ان ٹربل’ پاکستان کے مخلتف سینیما گھروں کی زینت بنی۔ کچھ عرصہ پہلے پاکستانی گلوکارہ اور ماڈل، میشا شفی نے علی ظفر پہ جنسی ہراس کا الزام لگایا، جس کے بعد کئی دوسری خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی علی ظفر کی نازیبا حرکات کے بارے میں آواز بلند کی۔

جب یہ فلم سینیما گھروں میں لگی تو کئی لوگوں نے، خاص کر کے نوجوان سماجی کارکنوں نے، اس فلم کا بائیکاٹ کیا۔

جس معاشرے میں بڑی تعداد میں لوگ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو خواتین کی ہی غلطی سمجھتے ہیں، ایسے ماحول میں اپنے ساتھ ہونے والی ہراس کے بارے میں آواز اٹھانا کسی انقلاب سے کم نہیں۔

میشا اور باقی خواتین کو سوالات کی بوچھاڑ سے نوازا گیا: ’اچھا، پہلے کیوں نہیں بولیں؟‘، ’علی ظفر نے کبھی میرے ساتھ ایسا نہیں کیا‘، ’تو کیا ثبوت ہے آپ کے پاس؟‘

سوشل میڈیا نے ایسے تمام حضرات کو بے نقاب بھی کیا۔ جب کل رات علی ظفر کی فلم کے پریمیئر پہ ایک مشہور برینڈ کے کرتا دھرتا، علی ظفر کی فلم دیکھنے پہنچے تو سینیما گھر کے باہر کچھ متوالے علی ظفر کے خلاف اور میشا شفی کے حق میں نعرے بازی بھی کر رہے تھے۔ موبائل فون کی رحمت تھی کہ ہر آنے جانے والا ریکارڈ کیا جا رہا تھا بلکہ لائیو ٹیلی کاسٹ ہو رہا تھا۔

جب یہ حضرت مظاہرین کے سامنے سے گزرے تو کسی نے زور سے پوچھا، آپ یہ فلم دیکھنے کیوں جا رہے ہیں؟ کالی شرٹ میں ملبوس ان حضرت نے مسکراتے ہوئے، کندھے اچکاتے ہوئے، ہاتھوں کو ہوا میں اٹھاتے ہوئے، با آواز بلند فخریہ انداز میں فرمایا: ’میں خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی ہراس کی حمایت کرتا ہوں!‘

سوشل میڈیا پہ شور مچنے کے بعد انھوں نے اپنی اس بے تُکی حرکت پہ معافی مانگ لی (عذر یہ دیا کہ نعرے بازی کرنے والے میری بیوی کو ہراساں کر رہے تھے، جبکہ ویڈیو سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی۔ وہ حضرت آرام سے چلتے ہوئے آتے ہیں، اُن کی اہلیہ ان کے ساتھ با آسانی سنیما کی عمارت میں داخل ہو جاتی ہیں اور یہ حضرت فاتحانہ انداز میں مسکراتے ہوئے آگے کو نکل جاتے ہیں۔)

ان کی بیوی کی ایک دوست نے فیس بُک پر پوسٹ لکهی اور اس بات کو رد کیا، مگر حیرانگی ابھی بھی اس بات پہ ہی ہے کہ آخر اُن کو ایسی بات کرنے کی کیونکر سوجهی؟

ایک بہت مشہور کپڑوں کے برینڈ کے طاقتور مالک ہونے کا مطلب کیا یہ ہے کہ وہ صحیح اور غلط کے فیصلے بھی خود ہی کر سکتے ہیں؟

سوال یہ بهی ہے کہ کیا ایسے حضرات معاشرے میں ہونے والی اہم گفتگو سے اتنے منقطع رہتے ہیں؟ یا کیا یہ اپنے یار دوست کی فلم کو سپورٹ کرنے کے لیے کسی بھی قسم کے الزام یا جرم کو ہنس کے ٹال سکتے ہیں؟ ٹالنا تو درکنار یہ تو اپنے دوست کی باتوں سے بھی دو ہاتھ آگے پہنچ چکے ہیں۔

میں اس ویڈیو کے پیچهے کارفرما ان چند افراد کی ذہنیت کے بارے میں فکر مند ہوں جو ایک طرح سے یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہاں میرا دوست خواتین کو جنسی طور پہ ہراساں کر چکا ہے۔ تو کیا ہوا؟ بہت اچھی بات ہے۔ قدم بڑھاؤ علی ظفر پدرانہ نظام تمہارے ساتھ ہے۔

سچ یہی ہے کہ ان کا یہ جملہ ایک سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو خواتین کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کو ٹھٹھے میں اڑاتا ہے اور ان کے گواہوں پہ سو سو سوال کرتا ہے، جبکہ اپنی سوچ اور اپنی ذہنیت کی پُرسش نہیں کرتا۔

جس برینڈ کے یہ حضرت کرتا دھرتا ہیں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، ایک خواتین کے ملبوسات کا برینڈ ہے۔ کل کو جب میں یا میری جیسی دوسری خواتین اپنے کپڑے خریدنے نکلیں گی تو ان کے دماغ میں کئی سوال ابهریں گے، جن کے جواب دیتے وقت یہ ویڈیو ضرور ذہن میں آئے گی۔

پدرانہ نظام میں مردوں کے استحقاق کے حوالے سے یہ ویڈیو ایک اور لمحۂ فکریہ ہے اور اس کے نتیجے میں آنے والی کمزور اور بے معانی معافی، میرے نزدیک ناکافی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp