کرما – ایک بلیک کامیڈی



میں ایک پیپل کا درخت تھا۔
میں نے چھاؤں بانٹی اور آکسیجن دان کی۔
ایک روز میرے بدن پر تیز دھار آرا چلا کر مجھے کاٹ دیا گیا۔
میری لاش سے میزیں اور پلنگ بنائے گئے۔

اگلی دفعہ میں ایک کونج بن کر نمودار ہوا۔
میں نے ہوا کے دوش پر رقص کیا، بے ساختہ محبت کی، بہار کی آمد کے گیت گائے اور ایک پیشہ ور شکاری کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔
مجھے خوشی ہے میں حالتِ رقص میں قتل ہوا!

تیسری مرتبہ میں ایک سیاہ ہرن کے روپ میں ظاہر ہوا۔
میں نے قلانچیں بھریں، کدکڑے لگائے، بہت سارے بچوں کو جنم دیا، رفتار کی آخری حد کو چھوا اور توازن کے معنی دریافتکیے۔
قریب تھا کہ میں فطرت کی آغوش میں پوری طرح سے ضم ہو کر ہمیشہ کے لیے مکتی پا جاتا مگر تکمیل کی سرحدوں سے ذرا پہلے، ایک آہنی شکنجے نے میرے پیروں کو کچھ اس طرح سے جکڑ لیا کہ میں آزادی کے لیے ہُوکتا اور مچلتا ہوا، مر گیا۔

چوتھے جنم میں مجھے ترقی دے کر انسان بنا دیا گیا۔
اس بار زندگی کی تفہیم منہ اور مقعدسے آگے نہ بڑھ پائی۔
میں اپنی پانچویں سالگرہ سے بھی ذرا پہلے، ایک نوبالغ ہمسائے کی نئی نویلی مردانگی کی بھینٹ چڑھ گیا۔

اگلی دفعہ مجھے ایک مکمل عورت کے قالب میں ڈھلنے دیا گیا۔
میں نے اپنی روح اور بدن کو کھوجنے کے لیے محبت کا سہارا لیا یہاں تک کہ ایک روز میرے بھائیوں اور باپ نے مجھے بد چلن قرار دے کر ذبح کر ڈالا۔
موت سے ذرا پہلے میں حالت وصل میں تھی۔
اپنی آخری سانسوں کے درمیانی وقفے کی لے پر، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے، میں نے محبت کی آخری انتہا کو چھوکر دیکھ لیا۔

پھر مجھے ایک مہان اوتار بنا کر بھیجا گیا جو اپنے ہاتھ کے لمس سے بیماروں کو تندرست کر سکتاتھا۔
ایک مشتعل ہجوم نے مجھے پیروں تلے روند کر مارڈالا۔
میری لاش بھی جلا دی گئی۔

مجھ میں ساتویں مرتبہ زندگی پھونکی گئی تاہم اس دفعہ مجھے پیدا ہونے کا موقع نہ مل پایا کیونکہ ریڈیالوجسٹ کا خیال تھا میرے جنسی اعضا ء کبھی مکمل نہ ہو پائیں گے اور میرا والد بہت دور اندیش آدمی تھا۔
ایک خرانٹ سی گائناکالوجسٹ نے تمام طبی صلاحیتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، مجھے اپنی ماں کے پیٹ میں ختم کر ڈالا۔

اگلی بار جب میری آنکھ کھلی تو میں روشنی کا ایک بے انت پیکر تھا۔
مجھے بتایا گیا میرا نام برہما ہے اور آج تک اپنی ہر اذیت کا ذمے دار میں خود ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).