پاکستانیو: اپنے ووٹ کا پہرہ دو!


عام احمقانہ بیانیہ کے برعکس، جو پچھلے ستر سال سے جاری ہے، پاکستان آج کل واقعتاً ہی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ یہ دور حقیقت میں پُرخطر ہے اور اس بات کو بار بار ثابت کرتا چلا جا رہا ہے کہ میرے دیس اور میرے لوگوں کے غم، باہر والوں کی زیادتیوں سے زیادہ، اندر والوں کی ”مہربانیوں“ کے سبب ہیں۔ تاریخ سے شُدھ بُدھ رکھنے والے اس بات سے واقفیت رکھتے ہیں کہ مولوی تمیزالدین مرحوم کے اک عدالتی فیصلے نے سینہ زوری کا اک ایسا سیلابی ریلہ شروع کیا جو آج تک نہیں تھم سکا۔ آج ہی کی تاریخ میں، یعنی مؤرخہ 21 جولائی 2018، کو راولپنڈی بار کونسل کی دعوت پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے اک معزز جج، جناب شوکت صدیقی صاحب کے خطاب کا اک حصہ ہی ہِلا دینے کے لیے کافی ہے۔

یہ داستان مگر پرانی ہے۔ نئی نہیں۔ اور اس داستان کے لکھنے والے اور پھر اسی داستان کے سکرپٹ پر چلنے والوں نے اپنی عادات ترک نہیں کیں۔ اس داستان کو لکھنے والوں نے پاکستان میں بسنے والے لوگوں کو کبھی شہری بننے ہی نہیں دیا، کیونکہ شہری، حقوق کے فریم ورک کے تحت بنتے اور جیتے ہیں۔

پاکستان میں بسنے والے لوگ، پچھلے ستر سال میں بہت مشکل سے رینگ رینگ کر اب ”عوام“ کے مقام پر فائز ہوئے ہیں، اور عوام کے بعد، مجھے امید ہے کہ اگلی منزل، شہریت کی ہوگی۔ پاکستانی کے شہریوں کو اصل والی شہریت، لکھے ہوئے سکرپٹ پر عمل کرنے والے پسِ پردہ ہاتھوں، اور پیش پردہ انقلابی مہروں کی بدولت نہیں ملے گی۔ پاکستان کے شہریوں کو اپنے ہی ملک کی شہریت، جمہوریت اور پاکستان کے آئین میں درج حقوق کے فریم ورک پر عمل درآمد کرنے سے ہی حاصل ہوگی۔ یہ ریاست کا احسان نہیں، اس کا فرض ہوتا ہے۔

پاکستان کے مقدس آئین اور اس میں درج حقوق کے فریم ورک پر عمل صرف اور صرف سیاستدان ہی کر سکتے ہیں۔ کوئی اور نہیں۔ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ میرے ملک کے اکثریتی لوگ، اور نوجوانوں کی اک خوفناک تعداد مطالعہ کی عادت سے نہ صرف دور ہی نہیں، بلکہ مخالف بھی ملتے ہیں۔ وگرنہ وہ جانتے کہ محترم جنرل ضیاءالحق صاحب نے آئین کو چند صفحوں کی کتاب کہا تھا، کہ جس کو (ماخوذ) وہ جب چاہیں پھاڑ کر پھینک سکتے ہیں۔ انہی محترم کے یہ الفاظ بھی تھے کہ (ماخوذ) سیاستدان، کتوں کی مانند ہیں، جب بھی وہ ہڈی ڈالیں گے، یہ کتے دم ہلاتے چلے آئیں گے۔

اپنی جذباتیت میں اس بات کی ہاں میں ہاں ملانے سے پہلے بتاتا چلوں کہ محمد علی جناح بھی اک سیاستدان تھے۔

آپ اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں میں جس جس شخص کے کندھوں پر اپنے خواب اور آدرش رکھ رہے ہیں، وہ بھی سیاستدان ہی ہے۔ سیاستدان، جیسے بھی ہوں، عوام سے کٹ اور الگ ہو کر رہ ہی نہیں سکتے۔ آپ ان سے جتنی مرضی ہے نفرت کر لیں، سیاستدان، گھوم پھر کر پانچ سال کے بعد آپ کے پاس ہی آتے ہیں، آپ کی ٹھوڑیوں کو ہاتھ لگاتے ہیں، آپ کی منت سماجت کرتے ہیں اور آپ کے حالات بہتر بنانے کے وعدے کرتے ہیں۔ حالات بہتر کر بھی دیتے ہیں، اور کبھی کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں۔

مگر یہ سیاستدان ہی ہیں، جو آئینِ پاکستان کے تحت آپ کو اپنے وطن، پاکستان، سے جوڑے رکھتے ہیں۔ آپ اگر سیاستدان کو اپنے اور ریاست کے درمیان سے نکال دیں، تو صاحبو، آپ سے وزنی تو پولیس کے پانچویں گریڈ کا اک سپاہی ہے جو لکھے ہوئے قانون کی معطلی میں آپ کے ساتھ بےمہارا جو چاہے کرتا پھرے گا۔ ریاست کے باقی اداروں پر بات کرتے ہوئے، مجھ جیسے بزدل شخص کے کی۔ بورڈ کے بٹن جلتے ہیں۔

پاکستان اور پاکستانی عوام کو جمہوریت، کہ یہ جیسی بھی تھی اور جیسے بھی چلی، نے بہت کچھ نوازا ہے۔ آپ شاید جانتے ہی نہیں کہ پاکستان میں پہلے ووٹ ڈالنے کے لیے شناختی کارڈ کی بھی ضرورت نہ تھی اور اگر میرا ذہن درست ساتھ دے رہا ہے تو یہ 1988 میں لازم قرار دی گئی۔ آپ کو تو یاد نہیں ہو گا، مگر سنہ 2010 میں، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے تحت تقریبا ساڑھے تین کروڑ ووٹ بوگس پائے گئے اور اک بہت سخت محنت کے بعد، سیاسی حکومت نے یہ ساڑھے تین کروڑ ووٹس پاکستانی انتخابی نظام سے خارج کیے۔ اور پھر بعد میں اسی سیاسی تسلسل نے ووٹرز لسٹس پر ووٹرز کی تصاویر بھی شائع کروائیں، تاکہ ہیراپھیری کے کسی بھی سلسلہ کو کم سے کم کیا جا سکے۔

میں 1993 سے ووٹر ہوں، اور آپ کو حلفاً کہتا ہوں کہ ہونے والا ہر الیکشن، پچھلے الیکشن سے سٹرکچرلی بہتر سے بہتر ہوتا چلا گیا۔ عمران نیازی صاحب کے ”پینتی پینچروں“ والے احمقانہ بیانیہ کا انجام بھی آپ کے سامنے ہے، جس کو انقلابی صاحب نے محترمی حامد میر صاحب کے پروگرام میں اک ”سیاسی بیان“ کہہ کر جان چھڑائی۔ ان کی انقلابی تحریک کے نوجوانوں کے کروڑوں ٹھمکے دھرنہ میں گویا ضائع ہی گئے۔

چونکہ الیکشنز کا پراسیس بہتر سے بہتر ہوتا چلا گیا، اس سے سیاستدانوں کی قانونی پوزیشن بھی بہتر سے بہتر ہوتی چلی گئی، اور جب سیاستدان سودے بازی کرتا ہے تو گوادر بھی لے کر آ جاتا ہے، وگرنہ سیاچن بھی ہاتھ سے جاتا ہے کہ وہاں تو ”گھاس بھی نہیں اگتی!“

آنے والا الیکشن، جو اب صرف چار روز دور ہے، میں پاکستان کی اک انقلابی جماعت کے گھڑے اور گڑے ہوئے سپورٹران کے علاوہ، پاکستان کی تمام دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان سے میں ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں کہ اس الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ الیکشن کے دن خود، اپنے گھر والوں کو، اپنے دوستوں، احباب، رشتہ داروں اور اپنے تمام جاننے والوں کو ووٹ ڈالنے پر نہ صرف کہیں، بلکہ انہیں مجبور کریں۔

انہیں مجبور اس لیے بھی کریں کہ یہ شہری آزادیوں، شہری عزتوں اور اک چڑھے ہوئے اندھے، بہرے، بدعقل، بدشکل مگر ریاستی اختیارات کے نشے میں غل غپاڑہ کرتے طوفان کے مابین معرکہ ہے۔ اس معرکہ کا فیصلہ ہی پاکستان میں جمہوریت اور اس کی مستقبل کی سمت کا تعین کرے گا۔ میرے پاکستانی ووٹرو، آپ اگر اس اندھے، بہرے، بدعقل، بدشکل مگر ریاستی اختیارات کے نشے میں غل غپاڑہ کرتے طوفان کے سامنے اپنے ووٹس کا بند نہیں باندھتے تو سن لیجیے کہ شعور کے چالیس برس گزار لینے کے باوجود میں شہری حقوق اور آزادیوں سے محروم اور خود کو خوفزدہ محسوس کرتا ہوں۔ آپ نے اپنے ووٹ کا پہرہ نہ دیا، اپنے وطن کا حق ادا نہ کیا، تو حقوق اور آزادی سے یہ محرومی اور خوف، آپ کی نسلوں میں منتقل ہو گا۔

ووٹ دو۔ اپنے ووٹ کا پہرہ دو۔ اس اندھے، بہرے، بدعقل، بدشکل مگر ریاستی اختیارات کے نشے میں غل غپاڑہ کرتے طوفان کو روکو۔ خدارا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).