گالی دو۔ ووٹ لو


رک۔ ۔ رک۔ ۔ رک۔ ۔ پچھلے ساڑھے پینتیس منٹ سے تیرے مغلظات سن رہے ہیں۔ ملکی اقتصادیات۔ عالمی تعلقات، امن عامہ کی صورت حال، تعلیم، پولیس، لوٹ مار چوری چکاری کی بات کرتے جا رہے ہو۔ ہم برداشت کررہے ہیں اور تم بڑھتے ہی جارہے ہو۔

گھٹیا معیار تعلیم، طبقاتی بنیادوں پر تقسیم تعلیمی نصاب کی بات تم چھوڑو۔ گندگی کے ڈھیروں، کھلے گٹروں، اور روزانہ ان میں گرنے والوں کی بات نہ کرو۔ ہم یہاں رہتے ہیں۔ یہ ہمارا شہر ہے۔ ہمیں یہ سب معلوم ہے۔ ان سب باتوں سے ضروری بات۔ وہ بتاؤ پہلے۔ تم کون ہو۔ ؟ تمھارا عقیدہ کیا ہے۔ ؟ تمھارا مسلک کیا ہے۔ ؟ اچھا یہ بھی چھوڑ۔ یہ بتا قادیانیوں کو گالی دے سکتے ہو۔ ووٹ کی بات بعد میں کرنا۔ تعلیم، صحت، عدلیہ، پولیس، امن عامہ، بجٹ کی بات بعد میں۔ پہلے گالی دو۔ احمدیوں کو گالی۔

ہمیں معلوم ہے تم نے احمدیوں کے پیشوا کو گالی دینے والے حلف نامے پر دستخطبکیے ہیں۔ لیکن وہ تو سرکاری کاغذ ہیں۔ ہمارے سامنے تو اپنے عقیدے کا اظہار تم نے کیا نہیں۔ پبلک میں احمدیوں کو گالی دی نہیں۔ جب تک تم ایسا نہ کر و گے پروتر نہ ہوگے۔ اور ہم کسی ناپاک، اچھوت، کافر کے منہ نہیں لگتے۔ ووٹ دینا تو دور کی بات۔

جبران ناصر! تم قائد کی بات کرتے ہو۔ جناح کی بات کرتے ہو۔ وہ چلا گیا۔ اب ہم ہیں۔ اب قائد اپنا اپنا۔ جناح اپنا اپنا۔ تم کس دنیا سے آئے ہو۔ ؟ تمھیں نہیں معلوم یہاں صرف ختم نبوت کے نام پر چورن بکتا ہے۔ ہم نے پچھلی بار بھی مجاہد ختم نبوت کو ووٹ دیے تھے۔ اب بھی ایسا ہی کریں گے۔ اس نے وعدہ کیا تھا اسلامی طریقے سے ہمارے مسائل حل کرنے کا۔ اسلامی طرز پر نالیوں، گلیوں سٹرکوں کی صفائی کرنے کا۔ اسلامی پولیس، عدل فاروقی، نفاذ شریعت کا۔ وہ تو ذرا اس پر برا وقت آگیا اور ہمارے ہی علاقے کی ایک کم سن بچی سے ریپ کیس میں پکڑا گیا۔ صرف اس لئے ہمارے مسائل ذرا تاخیر کا شکار ہوئے۔ لیکن اب پھر وہ میدان میں ہے۔ مرد کا بچہ ہے جیل سے چھوٹ آیا ہے۔

تمھیں نہیں پتا الیکشن میں کیا لے کر آتے ہیں۔ تم کوڑھ مغز ہو۔ یہ بات تو پنڈی والے کو بھی معلوم ہے۔ اسی لئے تو اس نے گزشتہ سال اسمبلی میں کھڑے ہو کر ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ ایک سال پہلے سے الیکشن کی تیاری شروع کر دی۔ دیکھو آج کس کامیابی سے اپنی الیکشن مہم چلا رہا ہے۔ تم نے دیکھا نہیں وہ کیپٹن کیسے دھاڑا تھا اسمبلی فلور پر۔ راتوں رات قوم کی آنکھ کا تارا بن گیا تھا۔ یہ ہوتے ہیں لیڈر۔ تم آئے ہو قائد کی باتیں کرنے۔

تم پر تو ” حرف راز ‘‘ بھی نہیں کھلا۔ دیکھو کیسے کیسے راز وہاں قوم کو سنائے جاتے ہیں۔ کیسی کیسی پچیدہ گُتھیاں بآسانی لمحوں میں سلجھائی جاتی۔ پھرچیخ چیخ اور اچھل اچھل کر منہ سے جھاگ پھینکتے ہوئے قوم کو سکھائی جاتی ہیں۔ دیکھ اس ”دانشور ‘‘ کی طرف کیسے روزانہ لوگوں کے” ایمانوں ‘‘کو بچاتا اور انہیں حرارت دیتا ہے۔ یہ ہوتے ہیں مجاہد۔ واللہ اگر وہ آج الیکشن میں کھڑا ہو جائے تو ریکارڈ کامیابی حاصل کرے۔

جبران ناصر! کچھ تو سبق لے گجرات والوں سے۔ دیکھ وہ کیسے اپنے باپ کی ” شہادت ‘‘ کو ختم نبوت کے نام سے سالوں سے فروخت کر رہے ہیں۔ دیکھ ساجد و مسجود کو۔ دیکھ صاف چلی شفاف چلی کو۔ دیکھ سجادہ نشینوں کو۔ اور دیکھ پردہ نشینوں کو۔ ہر ایک کے بھیجے میں یہ بات آسانی سے گھس گئی۔ ایک سالا تو ہی الٹی کھوپڑی لے کرآگیا ہے کہیں سے۔

دیکھ خاموش رہ۔ کچھ نہیں بولنے کا۔ پورے ساڑھے پینتیس منٹ تیری بکواس سن لی۔ اب ہماری سنے گا۔ تجھے توہمارا شکر گزار ہونا چاہیے کہ تیرے سے رعایت کر رہے ہیں۔ تیرے سے بات کر رہے ہیں۔ ورنہ ہمارے مجاہدوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ بات چیت میں ضائع کریں۔ لگتا ہے تو مشال خان کی مثال بھول گیا ہے۔ گوجرانوالہ میں ماہ رمضان میں جلتی کائنات کو بھی بھول گیا ہے۔ اور اس رمضان میں سیالکوٹ میں سوسالہ پرانی گرتی ہوئی مسجد بھی تجھ سے اوجھل ہو گئی ہے۔ تُو تو کوڑھ مغز ہے سالا۔ ” جبر ‘‘ تو تمھارے نام کا حصہ ہے جبران۔ پھر بھی تم ان قادیانیوں کو جبری کافر سمجھنے سے قاصر ہو۔ تُف ہے تم پر۔

دیکھ ہم جیالے ہیں۔ ہم مجاہد ہیں۔ دیکھ اس سٹرک کو اور ا س میں پڑے گڑھوں کو۔ جہاں گٹروں کا پانی جمع ہوتا ہے۔ دیکھ کھلے گٹروں کو۔ اس میں کل ایک اور پرسوں دو بچے گرے تھے۔ پچھلے ماہ رکشا الٹا تھا۔ اس میں سوار پانچ میں سے ایک خاتون سات ماہ کی حاملہ تھی۔ اس کا بچہ ضائع ہوگیا تھا۔ نہیں نہیں ضائع نہیں قربان ہوا تھا۔ پچھلی بار بھی ہم نے ووٹ ختم نبوت کے نام پر دیا تھا۔ ہمارا امیدوار پکا مجاہد تھا۔ اس نے اسی جگہ کھڑے ہو کر احمدیوں کو خوب لتاڑا تھا۔ مجمع پاگل ہو گیا تھا اس کی تقریر سن کر۔ وہی لیڈر جیتا تھا یہاں سے۔ کوئی بات نہیں اگرہمارے بچے مرے۔ کوئی بات نہیں ہماری عورتیں اس گند میں روز گرتی ہیں پر ہم نے ووٹ تو ایمان کے لئے دیا نا۔ اپنا ایمان تو بچا لیانا۔ ہم تم سے بھی کچھ نہیں مانگتے۔ بس گالی دو اور ووٹ لو۔ ہمیں نہیں چاہیے پکی سٹرک، اور صاف پانی۔ ہم مجاہد ہیں اور مجاہدوں کو سر پر بٹھاتے ہیں۔ یہ جناح کاپاکستان ہمیں سمجھ نہیں آتا۔ یہ قائد کے نعرے تم اپنے پاس رکھو۔

ہمارا مجاہد، ہمارا بہادر شیر دل لیڈر آیا تھا اس بار بھی۔ ووٹ اس کا پکا ہے۔ تمھیں پتا ہے اس کے جلسے میں سب سے زیادہ نعرے کس نے لگائے تھے۔ ؟ اسی باپ نے جس کا بچہ ضائع۔ ۔ ۔ نہیں نہیں قربان ہو اتھا۔

میں نے کہا بس۔ اب تو کچھ نہیں بولے گا۔ پورے ساڑھے پینتیس منٹ تمھاری سنی اب ہماری سنو! ہمارے نا تعلیم یافتہ بچے، ہمارے بیمار بچے، خراب رستے، کھلے گٹر، ہمارے ایمان کی حرارت کم نہیں کر سکتے۔ ووٹ آج بھی اس کا جیسا نعرہ مقدس۔ عزت بھی اس کی جس کا بیانیہ پاکیزہ۔ ۔ اور۔ ختم نبوت کے نعرہ سے مقدس نعرہ اور کون سا ہے۔ ایسا نعرہ جو کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ ہر بار تقدیس کے آنسوؤں میں دھل کے آتا ہے۔

جبران ناصر! لگتا ہے تو ٹویٹر بھی نہیں دیکھتا۔ میں تمھیں بتاتا ہوں۔ دیکھ ہمارا ایک مجاہد تمھیں کیسے جواب دے رہا ہے۔ اس کا نام ہے” شریر النفس shareer_un_nafs @ دیکھ۔ میں نے کہا۔ اس کے نام پر انگلی مت اٹھائیو۔ مت بولو کہ وہ خود اپنے آپ کو شریر لکھتا ہے۔ ہے پکا مجاہد۔ لکھتا ہے:
”قادیانیوں کی پاکستان کے لئے خدمت یا ان کی حب الوطنی پر کسی کوکوئی شک نہیں۔ وہ بھی پاکستانی ہی ہیں۔ بس مسلمان نہیں ہیں۔ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے وہ مسلمان نہیں ہیں۔ نہیں ہیں۔ نہیں ہیں۔ اینڈ آف ڈسکشن۔ ! ‘‘

بس تم سے بھی اینڈ آف ڈسکشن۔ تم بھی یہاں سے رفو چکر ہو جاؤ۔ اب اس گندے پانی سے مکھیاں اڑاتے، مچھروں کو بھگاتے، اپنی شلوار گھٹنوں تک گند میں لبیڑتے نکل جاؤ۔ کوں۔ کوں۔ کوں۔ شڑپ۔ شڑپ۔ شڑپ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).